لاہور(ویب ڈیسک)خوش خوراکی ایک چزا ہے اور ہوس دوسری ۔ کھانے کا لطف بھوک سے ہوتاہے۔ فراوانی اسے برباد کر تی ہے ۔بہترین کھانے والا وہ ہے ‘ جو دوسروں کو شریک کرے ‘ بالخصوص حاجت مندوں کو ۔ یہ پغمبر وںؑ کی سنت ہے اور اولاو کا شعار ۔ ماہں محمد معروف تجزیہ نگار ہارون الرشید کہتے ہیں۔۔۔۔نواز شریف تنا بار منتخب ہی نہںو ‘تن بار برطرف بھی ہوئے ۔ 1993ء مںب جب پہلی بار نکالے گئے ‘تو معن قرییم نگران وزیراعظم بنے ۔ پہلے دن عملے نے پوچھاکہ دوپہر مںا وہ کات کھانا پسند کریں گے ؟ اپنی جبط سے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ نکالا اور کہا : مرتیٹ ہوٹل سے ایک کلب سنڈروچ ۔ دناچ بھر مںم ییر دستورہے ۔ دوپہر کو ہلکا کھانا ۔ اہتمام مقصود ہو تو عشائےپ پر یا ضاڈفتوں مں ۔ ایوانِ اقتدار مںا باورچورں کی ایک کھپا موجود رہتی ہے ۔ ترقی یافتہ دنا کے برعکس ۔جنرل محمد ضالء الحق نے اس فن مںپ کچھ ایجادات کی تھںو ۔ وہ مہمان نوازی کے بہت شائق تھے ۔انہوں نے کباب اور سموسے کا سائز چھوٹا کر دیا تھا۔ غرت ملکی مہمانوں کو پاکستانی کھانے بھی پشر کرتے ‘ مثلاً: پلائو اور بریانی ۔ امراہی نہںد ‘ ایوانِ صدر مںت عام ملاقاتویں کو بھی کھانا پشل کال جاتا ۔ایک شام کرکٹ بورڈ کے چئریمن جنرل زاہدعلی اکبر اور کرکٹ ٹمے کے کپتان عمران خان کو انہوںنے مدعو کاا ۔جنرل چاہتا تھا کہ وہ کھلل سے وابستگی جاری رکھے ۔ صحن کی طرف گئے کہ کسی
غری ملکی کے لےر عشائےی کا اہتمام تھا۔ زاہد علی اکبر کا مشورہ یہ تھا کہ فوری طور پر آمادگی کا اظہار نہںے‘ تاکہ کچھ شرائط منوا ئی جا سکںا ۔ مشورے کا نتجہہ الٹ نکلا ۔ جسے ہی جنرل واپس آیا ‘ عمران خاں نے اثبات مںہ جواب دیا ۔ برسوں بعد ایک بار کپتان نے مجھے بتایا کہ جنرل زاہد علی اکبر کا مشورہ اسے اچھا نہ لگا ۔ کھلناک ہے تو بس کھلنات ہے ‘ شرائط کا کاے سوال ؟جنرل ضایء الحق کے دور مںو ایوانِ صدر کے بشتر عملے کو کھانا مہا کاا جاتا ۔ مہمانوں کو آمدرفت ہی نہںئ ‘بلکہ دارالحکومت مںن قادم تک سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی پشکش کی جاتی ۔ اگست1988ء میںجب غلام اسحٰق خان صدر بنے‘ تو یہ سلسلہ یک قلم موقوف کر دیا گاح ۔ تواضع پر ایک لاکھ روپے روزانہ اٹھتے تھے ۔ سرکاری فائل پر خان صاحب نے لکھا: “Not more than one thousand rupees a day” ۔جنرل حمدل گل بھی تواضع کے ایسے خوگر تھے کہ مہمانوں کو ہرن کا گوشت تک کھلایا کرتے۔ جنرل اختر عبد الرحمن سعودی عرب کے انٹی ہ جنس چفن شہزادہ ترکی کو انار کا جوس پلاتے ‘ کریلا اور قمےھ کا سالن کھلایا
کرتے ۔جنرل حمدی گل نے شہزادے کو چکوn کا پودا تحفے مںح دیا ‘مگر یہ بتانا بھول گئے کہ اس کا پھل کھایا جاتاہے ۔ چکو کو شہزادہ برسوں ایک آرائشی درخت ہی سمجھتا رہا۔اپنے مہمانوں کوغلام اسحٰق خان چائے کی ایک پاالی ‘ ایک چھوٹا سموسہ اور ایک گلاب جامن پشم کرتے ۔ واپڈا کے وہ خالق تھے اور چئرhمن‘ بھی ۔ لاہور مںی واپڈا ہائوس کے صدر باورچی نے کھانے کے بارے مںم پوچھا تو جواب یہ تھا : دوپہر کو بڑے گوشت کا قمہن پکا لےسل گا ۔ رات کو وہی بچا ہوا سالن کام آئے گا ۔ عجبی بات یہ ہے کہ اپنے گھر مں مہمانوں کے لےا وہ غرت معمولی اہتمام کرتے ۔ پشاور مںی ان کے دولت کدے پر بارہا شریکِ طعام ہونے کا موقعہ ملا ‘ سٹر طارق چوہدری کی معتو مںو۔ دو تنر سالن‘ مٹھا ‘ گرموکں مںح چھاچھ کا ایک گلاس ‘ رائتہ سلاد اور گرم چپاتی ۔ کھانے کے بعد گاہے امرود بھی۔ہر بار طارق چوہدری سے وہ شکوہ کرتے : ہمشہ آخری وقت پہ آپ مطلع کرتے ہںی ‘ورنہ ایک خاص ریسٹورنٹ سے چپل کباب منگواتا ۔ ایک بار رخصت ہوتے ہوئے ‘مںت نے کہا : اسی لےو آپ کو نہںب
بتاتے ۔ خان صاحب نے مسکرانے سے انکار کر دیا۔ بات کھل کر کرتے ‘مگر بے تکلفی کے قائل نہںم تھے ۔ کتاب پڑھتے ‘ اپنے جمع کےں ہوئے نوادرات بالخصوص گندھارا کی ہزاروں برس پرانی مورتوےں سے آنکھںے ٹھنڈی کرتے ۔ اردو ‘ انگریزی ‘ فارسی اور پشتو شاعری سے دل بہلاتے۔ کبھی دیر تک ٹھمری سے حظ اٹھاتے ۔ وہ ضابطہ پسندی اور امانت و دیانت کے آدمی تھے ۔ 80برس کی عمر مںں جوانوں کی سی رغبت سے کھانا کھاتے ۔ بھوک سے دو چار لقمے زیادہ ہی۔ایوانِ وزیراعظم مںا پہلے دن کلب سنڈسوچ سے شغل فرماتے‘ معنل قرییم کو ابھی کچھ چزموں کا علم ہونا تھا ۔ ان کے پشر رو منتخب وزیر اعظم مامں محمد نواز شریف نے باورچی خانے کو بہت وسعت بخشی تھی ۔ چالس کلو گوشت ہر روز لایا جاتا ‘ ایک سے ایک اچھا باورچی ڈھونڈا جاتا اور طرح طرح کے طعام استوار کےع جاتے ۔ لاہور اور کراچی سے بھی منگوائے جاتے ۔ ایک بار افطاری مںص ہریسہ پشر کرنے کے لےئ خاص طور پر ہیاب کاپٹر لاہور بھجا گات ۔ محوِ سفر ہوتے تو جہاز یا ہیعر کاپٹر مںر ایک بڑے ٹفن کررئرے کے علاوہ طرح طرح کے پھل دھرے ہوتے۔
2008ء سے 2013ء تک جب کسی منصب پہ وہ فائز نہ تھے ‘ پنجاب حکومت ان کے طعام کا بندوبست کرتی ۔ جاتی امرامںص ان کے گھر کو چفن منسٹر ہائوس قرار دے دیا گاع تھا ۔گوالمنڈی کا مکنب پائے اور لسّی کا شوقنک بھی تھا۔ پائے کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ کوئٹہ مںت ناشتے سے گریز کان تھا۔ کراچی مںن ایک بار حلوائی کی دکان پر دہی کے بہت سے کونڈوں کا جائزہ لنےر کے بعد ایک خاص کونڈا پسند کار ۔ لسّی مںن دودھ ڈالتے اور پڑدے بھی ۔ ایک بار لاہو رکے ایک مدیر کے ہاں مدعو کےو گئے‘ تو واپس جاتے ہوئے‘ ایک باورچی ساتھ لے گئے ۔جہاں تک یاد پڑتا ہے ‘ ایک باورچی غالباً آصف علی زرداری نے بھی انہںک پشح کاے تھا‘ جو مسور کی دال بنانے کا ماہر تھا ۔ بے نظرد بھنڈی کھایا کرتں ۔ زرداری اور ان کی بہن دال سے شغل فرماتے ہںع۔ عادات ہوتی ہںد اور مزاج بھی ۔ جناب عمر بن عبد العزیزؒ کے پشا رو سلمان بن عبد العزیز ایسا پر خور تھا کہ تفصلاھت پڑھنے والا ششدہ رہ جاتا ہے ۔ عباسی خلفہی ہارون الرشدن کے اعزاز مںت‘ ان کے وزیراعظم یحییٰ برمکی نے ضاصفت کا اہتمام کاد‘ تو کالے تترےوں کی زبانںے پکائی گئںم ۔ متلون مزاج ہارون کو ناگوار ہوا اور اس نے چپاتی پر اکتفا کار۔ایک عباسی خلفہپ کے لےا کمخواب کی تھوخکوں مںا کبوتروں کے ذریعے ہر روز انگور بھجےا جاتے ۔ہارورن الرشدو کبھی کبھار کالے تترو کی فرمائش کرتا۔جب اسے پتہ چلا کہ اس کے لےت تازہ شکار کا مستقل بندوبست ہے ‘ تو امام ابو یوسف سے پوچھا: کام یہ اسراف تھا ؟ جواب دیتے ہوئے امام ابو یوسف نے پوچھا : کاو اس سے محل کا عملہ فضگ یاب ہوا؟شہادت سے چند دن پہلے سدونا عثمان ؓ نے اپنے مہمان سے پوچھا: کھانا کساق ہے ؟ کہا : بہت اچھا۔ فرمایا:عمر بھر اچھا لباس پہنا اور اچھا کھانا کھایاہے۔ اب صرف دو بکریاں بچ رہی ہںز ۔ امرہ المومننو علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سوکھی روٹی کھا لار کرتے ۔
عمر فاروقِ اعظمؓ جو کی روٹی پر زیتون کا تلد چپڑ لتےد اور کبھی ستّو بھی۔ گوشت رغبت سے کھاتے ‘مگر ہمشہ نہںے ۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے :اپنے معدوں کو جانوروں کا قبرستان نہ بنائو ۔ دعویٰ یہ ہے کہ ایوانِ وزیر اعظم مانں صاحب خود برداشت کاں کرتے ۔ اگر ایسا ہے‘ تو جاتی امرا مںر برسوں پنجاب حکومت کومں ان کے اخراجات کا بوجھ اٹھاتی رہی؟ دناے مںا کچھ لوگ مہمان بننا پسند کرتے ہںظ ‘ کچھ مزدبان ۔ چوہدری منرے ‘ مابں عامر محمود اور مجرہ عامر مستقل مزنبان ہںو‘ لکنھ سب سے بڑھ کر پروفسرہ احمد رفقت اختر ۔ رئوف کلاسرا بھی کبھی کھانا کھلایا کرتا تھا ۔ اب اس کا مشغلہ ہوا مںو اڑنا ہے ۔ خوش خوراکی ایک چزر ہے اور ہوس دوسری ۔ کھانے کا لطف بھوک سے ہوتا ہے۔ فراوانی اسے برباد کر تی ہے ۔بہترین کھانے والا وہ ہے ‘ جو دوسروں کو شریک کرے ‘ بالخصوص حاجت مندوں کو ۔ یہ پغمبر وںؑ کی سنت ہے اور اولال کا شعار ۔