ڈاکٹر قیصر بنگالی ملک کے معروف روشن خیال ماہر معاشیات ہیں۔ وہ انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ ملکی معیشت کا کھرا اور بے لاگ جائزہ لیتے ہیں۔ 2010ء سے2011ء کے دوران وہ سندھ حکومت کے پلاننگ اور ڈیولپمنٹ کے مشیر رہے، چونکہ ان کے بعض فیصلے اور اقدامات سندھ حکومت کے لیے قابل قبول نہیں تھے، اس لیے وہ ایک برس بعد ہی مستعفیٰ ہوگئے۔
2013ء میںجب بلوچستان میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی قیادت میں نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی حکومت بنی تو انھیں اقتصادی امور کا مشیر مقرر کیا گیا، لیکن جیسے ہی معاہدے کی رو سے ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت ختم ہوئی، وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر کراچی واپس آگئے۔ گزشتہ دنوں ایک سندھی چینل کے لیے راقم نے ان کا انٹرویو لیا۔ چونکہ اس انٹرویو میں ملکی معیشت کے حوالے سے انھوں نے بعض اہم نکات اٹھائے تھے، اس لیے اس کے مندرجات ایکسپریس کے قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معیشت کی بہتری کے دعوے محض ڈھونگ ہیں۔ ملک کی معیشت کو لاس ویگاس (امریکا) اور مکاؤ(چین) کی طرز پر سٹے بازی کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ملک میں صنعت اور زراعت کی بہتری اور ترقی کے لیے ٹھوس اور پائیدار اقدامات نہیں کیے جارہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملکی معیشت کا انحصار خدمات کے شعبے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم کے علاوہ گردشی قرضوں اورغیر ملکی امداد پر ہے۔ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کہ قرضہ لے کر کام چلائے جاؤ۔
ان کا کہنا تھا کہ تین طرح کی صنعتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ بھاری صنعتیں ملکی صنعتی ترقی کو آگے بڑھانے جب کہ درمیانہ اور چھوٹے درجے کی انڈسٹری ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان انڈسٹیل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی ازسر نو تشکیل کی ضرورت ہے۔ جس طرح1950اور60کے عشرے میں پاکستان انڈسٹیل ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے صنعتیں قائم کر کے نجی شعبے کو دی تھیں اور نجی شعبے کی استعداد سازی کی تھی۔ آج ایک بار پھر اسی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں صنعتیں بھی لگائی جائیں تاکہ صنعتوں اور محنت کشوں دونوں کو تحفظ حاصل ہوسکے اور معیشت کو پائیدار بنیاد فراہم ہوسکے۔
قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا مختصر تعارف ضروری ہے۔1950میں جب پاکستان کو کولمبو پلان کے تحت صنعت کاری کے لیے امداد ملی تھی، تو اس وقت کی حکومت نے وزارت صنعت و تجارت کی زیرنگرانی یہ ادارہ قائم کیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ ملک کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں صنعتکاری کو فروغ دینے کے لیے صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو معلومات، سہولیات اور ماہرانہ تعاون فراہم کرے۔ ابتدائی دو دہائیوں تک اس ادارے نے خاصی تندہی کے ساتھ صنعتکاری کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کوٹری(ضلع جامشورو) میں ہونے والی صنعتکاری اسی ادارے کی کاوشوں کا نتیجہ تھی، لیکن جس طرح ریاست کے دیگر ادارے نااہلی، کرپشن اور بدعنوانیوں کا شکار ہوکر پیشہ ورانہ صلاحیت اورکارکردگی سے محروم ہوئے ہیں ، یہی کچھ حال اس ادارے کا بھی ہے، جو اب ایک سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹربنگالی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں صنعتکاری تین مدارج میں ہوئی۔ پہلا دور 1950کے عشرے میں شروع ہوا اور 1970 تک جاری رہا۔ اس دور میں عام ضروریات کی اشیا بنانے کی صنعت پر زیادہ زور دیا گیا۔ دوسرا دور بھٹوکا ہے، جس میں بھاری صنعتیں پبلک سیکٹر میں لگائی گئیں، جن میں اسٹیل مل خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اسٹیل مل کی امکناناتی رپورٹ میں واضح طورپر درج ہے کہ یہ کارخانہ منافعے کے لیے نہیں لگایا جارہا۔ اس کے قیام کا مقصد ملک کی صنعتی ضروریات کے لیے اسٹیل کی سستے داموں فراہمی بیان کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں گھارو اور دھابیجی کے مقام پر بھاری صنعتیں لگانے کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں صنعتکاری کے لیے منصوبہ بندی کرلی گئی تھی، لیکن 1977میں بھٹو مرحوم کی حکومت ختم کردی گئی جس کے بعد یہ منصوبہ کھٹائی میں چلا گیا۔ اسٹیل مل بھی جنرل ضیا کے دور میں تکمیل پذیر ہوا۔
جنرل ضیاالحق کے دور میں اسٹیل مل نے کام تو شروع کردیا، مگر اس سے جڑے مقاصد پر توجہ نہیں دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ کارخانہ وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر ملازمتیں بانٹنے کا ذریعہ بن گیا۔ یوں اپنے اصل اہداف سے ہٹ جانے کی وجہ سے چند برس تک تو صحیح طور پر چلتا رہا، مگر اس کے بعد گہناتا چلا گیا۔ آج حکومتیں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر اسے نجی شعبے کے ہاتھوں فروخت کرنے پر آمادہ ہیں۔ حالانکہ پاکستان انڈسٹیل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو دوبارہ فعال کرکے اس کے ذریعے اس کارخانے کو پبلک پرائیویٹ انٹرپرائز کے طور پر زیادہ بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔ جس کا فائدہ قومی معیشت کے علاوہ محنت کشوں کو بھی روزگار میں تحفظ کی شکل میں مل سکتا ہے، مگر اس مقصد کے لیے ملک کے طول و عرض میں صنعتکاری کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر شروع کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں کہ بھٹو مرحوم کے بعد قائم ہونے والی حکومتیں سیاسی عزم سے عاری ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کوئی ٹھوس اور دیرپا اقدام نہیں کر پا رہی ہیں۔ مثال دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 2010 میں جب وہ سندھ حکومت میں پلاننگ اور ڈیولپمنٹ کے مشیر تھے، پورے ملک میں خوفناک سیلاب آیا۔ اس سیلاب کے بعد انھوں نے اپر سندھ میں ایک ماڈل ولیج قائم کیا ، جس میں نکاسی آب کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ گلیاں سیدھی تھی اور مکان گلیوں اور سڑکوں سے قدرے اونچے تھے۔
اگلے برس(2011)میں پھر سیلاب آیا، بیشمارگوٹھ اس کی نذر ہوئے، لیکن اس ماڈل گوٹھ کی نہ گلیوں میں پانی کھڑا ہوا اور نہ ہی گھروں کے اندر گیا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ہر ضلع میں اس قسم کے گوٹھ تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ انھیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ بااثر زمینداروں (جن میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں کی اکثریت تھی) نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔ وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں کو وہ اپنا غلام رکھنا چاہتے ہیں انھیں قدرے بہتر زندگی مل جانے سے ان وڈیروں پر ان کا انحصار کم ہوجاتا۔
اسی طرح انھوں نے ایک امکناناتی رپورٹ بنا کر اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو دی تھی جو اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آمادہ تھے۔ اس منصوبے کے تحت اپر سندھ کے وہ چھ اضلاع جو ایک دوسرے سے ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہیں۔ ان کے درمیان فاسٹ ٹریکس سڑکیں بناکر ان کے اطراف غیر آباد (زرعی طور پر) زمینوں پر درمیانے اور چھوٹے پیمانے کی ایسی ایگرو بنیاد صنعتیں لگائی جائیں۔
اس سلسلے میں ضلع خیرپور میں صنعتکاری کے لیے زمین کا تعین بھی کرلیا گیا تھا، مگر ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے وہ ایلیکٹ ایبلز آڑے آگئے، جو غریب ہاریوں کی کسی طور بھی معمولی سی بااختیاریت کے حق میں نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا پی ایس اکثرو بیشتر بیرونی دباؤ میں آکر متعلقہ فائلیں تک غائب کردیا کرتا تھا۔ نتیجتاً وہ مستعفی ہوکر الگ ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ محترمہ شہید کی ہدایت پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ابتدائی خاکہ انھی نے تشکیل دیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ آج کل سی پیک کا بہت چرچا ہے۔ بعض لوگ اسے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس راہداری کے اطراف ایسی صنعتکاری ہو، جس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر خود حکومت پاکستان کا کلیدی کردار ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چینی حکومت پاکستان میں ہنرمند افرادی قوت کے لیے تربیت دینے کے بجائے اپنے لوگوں کو لارہی ہے۔ اس طرح پاکستان کی معیشت کی بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا۔چنانچہ سی پیک کے معاہدے پر نظر ثانی کی جائے اور اس میں وہ شرائط شامل کرائی جائیں، جن کے نتیجے میں پاکستان کے اپنے اختیار میں اضافہ ہو۔ اس کے بغیر پاکستانی عوام کو اس منصوبے کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کے ساتھ گفتگو میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف سڑکوں اور اورنج ٹرین اس ملک کا بنیادی مسئلہ نہیں ہیں۔ اولین ترجیح تعلیم کے شعبے کو دی جانی چاہیے تاکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہنرمند افرادی قوت کے حجم میں اضافہ کیا جاسکے۔ صنعتکاری دوسری بڑی ترجیح ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے بجلی اور پانی سمیت انفرااسٹرکچر کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا سی پیک پر بغلیں بجانے کے بجائے اس منصوبے سے جڑے معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔