تحریر: ڈاکٹر خالد
بارہویں جماعت کی سرٹیفیکیٹ اعلیٰ نمبروں سے حاصل کرنے کے بعد طالب علم نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر جاکر میڈیکل (علم طب ) حاصل کرکے اس مجال میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔جب کہ دوسری جانب وہ اپنے گائوں کو چھوڑنے کی وجہ سے پریشان حال و افسردہ تھاکہ اس کی روز کی صبح پرندوں کی خوبصورت آواز کو سن کر طلوع ہوتی تھی۔گائوں کے چاروں طرف لہلہاتے کھیت اس کی صحت و طبیعت پر خوشگوار اثرات ڈالتے تھے۔البتہ مشکل بات یہ تھی کہ وہ اگر گائوں کے حسن و جمال کو دیکھ کر وہ شہر جانے کا فیصلہ ترک کرتا تو اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہوتاکہ وہ علمی و فنی میدان میں کوئی قابل قدر نمایاں خدمات ہرگز انجام نہیں دے سکتاتھا۔اسی وجہ سے اس نے ارادہ کرلیا کہ وہ اپنے موضع سے سفر کرے اور شہر جاکر علم طب کی تعلیم حاصل کرے۔شہر میں چونکہ حصول تعلیم کے متعدد ذرائع و وسائل موجود ہیں اور مدینہ میں اعلیٰ جامعات و یونیورسٹیاں موجود تھیں اس لئے وہ رخت سفر ہوااور اس نے اپنے سامان سفر میں کتاب کو بھی ہمسفر بنالیا تاکہ وہ اپنے وقت و سفر کو مطالعہ کی چاشنی مزین کرے کیونکہ شہر کا سفر گائوں سے آٹھ گھنٹے کی مسافت پر تھااور وہ بہت طویل تھا۔
جب وہ گاڑی میں سوار ہواتو اس کے ذہن میں اپنے گائوں کی خوبصورتی اور اس کے رنگ برنگ کھیت میں گذرے دن یاد آنے لگے اور وہ ان پر سوچ و بچار کرنے لگا تو ساتھ ہی اس کے دریچہ خیال میں یہ بات آئی کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس علاقہ بہت خوبصورت ہے اور اس میں قدرتی جمال کا عکس موجود ہے مگر اس نے اس امر پر بھی غور کیا کہ دیہات و بستی میں جہالت کے دور کا راج ہے جس کے نتیجہ میں عوام الناس میں گھٹیا اور کمزور ترین افکار و نظریات موجود ہیں کہ وہ فاترالعقل انسان کو اولیا ء میں سے تصور کرلیتے ہیں کہ یہ اللہ کے ساتھ متصل ہے ،اسی طرح جہالت کی دلدل میں اس قدر معاشرہ دھنس چکا تھا کہ وہ ہر قسم کی گھٹیا اور سطحی اور فرضی و من گھڑت واقعات اور قصوں پر اپنے اعتقادات کی بنیاد کھڑی کرلیتے ہیں۔اسی بارے میں غور فکر کرتے ہوئے اس کے ذہن میں یہ خیال آیا معلوم نہیں کہ کب شہر آجائے اس کے ساتھ ہی وہ کتاب کے مطالعہ میں بھی مشغول و مصروف ہو رہا۔بلآخر منزل مقصود پر پہنچا تو دیکھ کر شددررہ گیا کہ چاروں طرف روشنی ہے ،بجلی موجود ہے اور ہزاروں لوگوں کی بازاروں اور سڑکوں میںریل پیل ہے ۔۔۔لیکن اس کو ایک مشکل درپیش آئی کہ اسے شہر میں سکونت کے لئے کوئی جگہ نہیں مل سکی اس کی وجہ یہ تھی کہ کرائے بہت زیادہ تھے جس کو اداکرنے کی اس میں استطاعت و قدرت نہ تھی۔بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ اس کو چاہیے کہ شہر کے گردونواح کے علاقوں میں کوئی گھر تلاش کرلے تاکہ اس کے پاس موجود جمع پونجی سے وہ کرا یہ بآسانی اداکرسکے۔اس کے بعد اس نے شہر کے قرب و جوار کم قیمت پر گھر حاصل کرلیاجو کہ تنگ و تاریک اور بندگلی میں واقع تھا۔
بند گلی میں جب وہ طالب علم اپنے مکان میں منتقل ہوا تو اس کو وہاں پر اس کو لمحہ بھر کے لئے بھی سکون نہیں ملا کہ دائیں بائیں سے شورشرابااور چیخ و پکار اس کو زچ وپریشان کررہی تھی کہ بچے چاروں طرف کھیل کود میں مشغول تھے اور اس کے ساتھ ہی ریڑھیوں پر سامان کی فروخت کی ندالگانے والوں کی آواز بھی اس کو تعلیم وتعلم سے دور کردیتی تھیں۔یہ سلسلہ رات کے دوبجے تک مسلسل جاری رہتاتھا اور تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جس وقت وہ ارادہ کرتاکہ سنجیدہ اور پرسکون محول میں وہ کتاب کا مطالعہ کرسکے تو اس کے کانوں میںتیزی کے ساتھ چلاتی آواز داخل ہوتی شفیقہ کا بیٹا ۔۔۔شفیقہ کا بیٹا۔۔۔شفیقہ کا بیٹا ۔نوجوان نے اچانک کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو متحیرومتعجب ہوگیا کہ کیا دیکھتاہے کہ ایک آدمی جس کی ظاہری حالت مخدوش ہے ،اس کے جسم پر گندگی کے آثار ہیں اور اس کے کپڑوں پر مٹی و کیچڑ لگاہواہے،
اس کے گلے میںکئی موتیوں کی مالائیں مختلف رنگ برنگ کی پڑی تھیں ،پگڑی میں بھی کئی رنگ تھے اور اس کے ساتھ اس کے داڑھی پر کھانے کے ریشے بکھرے ہوئے تھے،جوتا اس کا پھٹاہواتھا اس کے پائوں کی انگلیاں خستہ حال تھیں ۔۔۔باوجود اس کے کہ وہ بہت فربہ تھا مگر اس سب کے باوجود نوجوان اور بچے اس کو گائے و جانور کی طرح ہانکتے چلے جارہے تھے اور اس کے منہ سے لعاب ٹپک رہاتھا اس سب سے اس کی بے کسی و بے بسی ظاہر ہورہی تھی۔بچے اس ککا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے تاوقتیکہ عورتیں اور مرد گھروں سے نکل کر ان بچوں کو ڈانٹتے اور منع کرتے۔لوگ اس کو کھانادیتے تھے تو وہ زمین پر بیٹھ کر اس طریقہ سے کھانا کھاتا کہ دیکھنے والا اس سے کوسوں دور ہوجاتا تھا۔طالب علم زمانہ قیام اس بند گلی میں اس مغلوب الحال آدمی کو دیکھتا اور اس کے آنے کا وقت نماز عصر سے آذان مغرب تک تھا۔
شفیقہ کے بیٹے کی آمد کا سلسلہ تین سال تک جاری رہاپھر اچانک وہ غائب ہوگیا اور اس کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو لوگ اس کے بارے میں ایک دوسرے سے سوال جواب کرتے نظر آتے تھے کہ وہ ابن شفیقہ کہاں چلاگیا ؟کہاں چلا گیا اور کیوں نہیں آتا؟فقیر و غریب اور متوسط طبقے کے کمزور عقیدہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ لازمی طور پر ایک مجذوب تھا اور قبر سے نکلا تھا اور دوبارہ چلاگیا ہے واپس ،بعض عورتیں کہتی تھی کہ وہ مرگیا ہے اور وہ قریب کے گائوں کی مسجد میں دفن کردیا گیا ہے۔۔۔،اور کچھ کہنے لگے کہ وہ پہاڑ پر چلاگیا ہے اور وہاں مرگیا ہے اور اس کی وہاں قبر بنادی گئی ہے اس کی قبر پر مسجد بنادی گئی ہے کیوں کہ اللہ کے ولیوں میں سے ایک ولی تھا جس کو تم نہیں جانتے تھے۔۔۔اسی طرح کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ اللہ کا ولی تھا مگر آپ لوگوں نے اس کا احترام نہیں کیا لہذا تم پر ہلاکت ہواور جنہوں نے اس کا احترام کیا اور اس کو تسلیم کیا وہ خوش بخت ہیں۔۔۔اس طرح کی بہت ساری موشگافیاں جاری رہیں اس کے متعلق کہ وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا تھا اور کیوں چلاگیا؟
لیکن مدت طویل کے بعد شفیقہ کے بیٹے کے بارے میں عجیب و غریب اور گمراہ گن افکار و نظریات جنم لے کر فروغ پاگئے،بعض لوگ ان واقعات کی تصدیق کرتے اور بعض اس کو جھٹلاتے تھے۔ایک مدت طویل گذرنے کے بعد میڈیکل یونیورسٹی سے بیج فارغ ہوا اس میں وہ نوجوان بھی علم طب کی امتیازی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور اس نے اس کے بعد پریکٹس کا آغاز کیا اور عملی تجربہ میں کامیابی کے بعد اس نے ایک چھوٹے درجے کے ہسپتال میں کام کیا اور کچھ عرصہ بعد اس کے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب اپنے گائوں میں جاکر علاقہ کے لوگوں کی خدمت کرے اور ان کے علاج و معالجہ کا انتظام کرے۔مگر اس کو اپنے گائوں میں مناسب جگہ نہ ملی تو وہ پاس کے گائوں میں منتقل ہوا اور اس نے وہاں پر اپنی خالہ کے بیٹے کو پیسے بھیجے کہ وہ اس کے لئے جگہ خریدے جہاں وہ اپنی ہسپتال قائم کرسکے ۔ہسپتال کے قیام کے پس پردہ اس کا نکتہ نظر یہ تھا کہ وہ جہاں پر عوام کے علاج معالجہ کا اہتمام و انتظام کرے گا وہیں پر وہ معاشرے میں رائج فرسودہ اور بگڑے ہوئے نظریات کی بیخ کنی کا اہتما م کرے گا اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کرے گا جس کے نتیجہ میں گمراہ کن خیالات اور تصورات سے ان کی جان بخشی ہوسکے گی۔کیوںکہ اس طرح کے خیالات اور غلط عقائد پر ایمان رکھنے والا انسان اگرتعلیم حاصل کرنے میںکامیاب بھی ہوجاتاہے تو تب بھی وہ ان غلط نظریات سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرپائے گا۔
نوجوان نے پڑوس کے دیہات میں مختصر جگہ خریدی اور ہسپتال قائم کی اس کے ساتھ گیارہ سال کے بعد وہ اپنی شب و روز کی محنت کے بعد وہاں کے لوگوں میں علم کی روشنی پھیلانے میں کامیاب ہوگیا اور جہالت وظلمت کی طویل رات کو مٹادیا۔روزانہ ہسپتال جاتااورفقیروں ،غریبوں اور کمزوروں کے علاج کے ساتھ عوام الناس کی تعلیم و تربیت کا درجہ بدرجہ انتظام کرتارہتا جس کے نتیجہ میں وہ وہاں کے باسیوں کی نظرمیں پسند کیا جانے لگا۔ایک روز وہ اپنی ہسپتال میں مریضوں کے علاج میں مشغول تھا کہ اچانک بچوں کے چیخنے اور چلانے کی آواز آئی اور وہ بچے شور کررہے تھے کہ شفیقہ کا بیٹا ۔۔۔شفیقہ کا بیٹا ۔۔۔شفیقہ کا بیٹا۔
تحریر: ڈاکٹر خالد
03135265617