تحریر : محمد عتیق الرحمن
دولت کی ہوس ہردور میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں مورثی وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ عام طور پر سلیقہ مند، پڑھی لکھی، خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کرکے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ داروں کے اس دور میں لڑکوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصا مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےلئے سرگرداں رہتی ہیں۔ وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے ،بھائی کوفروخت کرنے نکلتی ہیں ۔لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں، لڑکی والوں کے ہاں جا کر ان کا ذہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے چلتا ہے اور وہاں سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں۔ گاڑی،کوٹھی اور دیگر قیمتی سازوسامان تو ان کی فہرست میںلازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں ان کے بعد کہیں جا کر لڑکی کی باقی خوبیوں کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اورڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔
جہیزہند و تہذیب کی ایک تباہ کن رسم ہے جسے ’وردشنہ‘ کہا جاتا ہے ، جس میں لڑکی والے لڑکے والے کو رقم دیتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ اس کا آغاز ’ویدک دور‘ سے ہی ہوگیا تھا۔”پاروتی“ کے والد نے’ ’شیو جی“ کو جہیز میں غلام، لونڈیوں، گھوڑیوں،ہاتھیوں، رتھ، کپڑوں اور ہیرے جواہرات کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں بیل گاڑیوں میں بھر کے دیا تھااوریہ وراثت کے متبادل کے طور پر تھا کیونکہ ان کے یہاں لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اس لئے اس کے ذریعہ اس کمی کو پورا کر دیا جاتا۔ہندو مسلم معاشرے کا ایک لمبے عرصے تک ساتھ رہنا۔اس قبیح فعل کو مسلم معاشرے میں لے آیا۔ جب کہ اسلام میں لڑکیوں کے لیے وراثت میں حصہ طے ہے اس لئے جہیز کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی گئی۔اب یہ تو ذہنی خرابی ہی کہلائے گی کہ باپ بڑھ چڑھ کر بیٹی کو جہیز دیتا ہے اور بھائی اپنا’ ’فرض“ ادا کرنے کے لیے حیثیت سے بڑھ کر اس کاانتظام کرتا ہے لیکن وہی باپ اس کی فکر نہیں کرتا کہ میرے بعد ترکہ میں سے بیٹی کو بھی حصہ دیا جائے اور نہ ہی بھائی وراثت میں سے بہن کو حصہ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔کیونکہ یہ ایک رواج بن چکا ہے کہ عورت کو جہیز دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے۔
شریعت نے جس چیز کو فرض کیا ہے ،اس کو ترک کر دیاگیا اور جس کا کوئی حکم نہیں دیا ہے اس کو تمام فرائض سے بڑا فرض سمجھاجاتا ہے۔صرف اس وجہ سے کہ ترکے میں حصہ نہ دینا پڑے اور شادی ہی میں کچھ دے دلا کر رخصت کردیاجائے۔لیکن یاد رہے کہ لڑکی جس طرح اپنی شادی سے پہلے گھر والوں کے لیے بیٹی اور بہن تھی اسی طرح شادی کے بعد بھی رہے گی بلکہ یہ تو زندگی بھر کا معاملہ ہے۔اس لیے جس طرح شادی سے پہلے اس کا خیال رکھا جاتا تھا ویسے ہی حسب ِ استطاعت شادی بعد بھی رکھنا ہوگا۔موجودہ دور میں جو چیزیں لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ان میں سرِ فہرست جہیز کی رسم ہے۔اس نے نہ جانے کتنی لڑکیوں اور ان کے والدین کو نگل لیا ، کتنی ہی گھر بیٹھی زندگی گذار رہی ہیں،کتنی ہی غلط راہوں پر چل نکلیں،کتنوں نے صرف اس وجہ سے پیار و محبت کی پیش کش کو قبول کر لیا کہ اسی بہانے بغیر جہیز دیئے شاد ی ہو جائے گی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں اس کی وجہ سے ہسٹریاکی مریض بن گئیں۔
میرے ایک دوست کھاریاں رہتے ہیں وہ مجھے بتارہے تھے ایک بزرگ ہیں جن کی پانچ بیٹیاں ہیں ۔وہ پاکستان ریڈیو میں بطور ٹیکنیشن ریٹائرڈ ہیں ۔آج کل اسی پینشن سے گذارا کررہے ہیں دوبیٹیوں کی شادیاں کرچکے ہیں ۔تیسری کانکاح کردیا ہے اوربقر عید کے بعد رخصتی ہے لیکن جہیز کا انتظام نہ ہونے کی بناءپررخصتی خطرے میں ہے ۔ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ اپنی بیٹی کو کچھ دے سکیں اور پہلی بیٹی کی شادی بھی 35سال میں ہوئی تھی اس کی وجہ بھی یہی ”لعنت “تھی ۔ ہمارے اردگرد اس طرح کے لاتعداد سفیدپوش لوگ ہیں جو اپنی بیٹیوں کی شادیوں کی وجہ سے اپنی راتوں کی نیندیں اور دنوں کا چین کھو چکے ہیں ۔بیٹیوں کے والدین کیا کریں وہ مجبورہوکر سود پرقرضہ لے کر اور دوسرے حرام وناجائز طریقوں سے بیٹی کے سسرال کی مانگے پوری کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس جیسی لعنتوں اور اسلام سے دوری کی بناءپر لڑکی کی پیدائش پرغم کی کیفیت پیداہوجاتی ہے اور ساری خوشی کافور ہو جاتی ہے۔یہ اس لیے نہیں ہوتی کہ اس کو اپنی بیٹی سے محبت نہیںیا جاہلیت دور کے عربوں کی طرح اس کی نام نہاد ”انا اور خودداری“ آڑے آرہی ہے یا اس نے یہ حدیث نبوی ﷺنہیں سنی کہ جس نے دو بیٹیوں کی اچھی پرورش کی تو وہ اس کے لیے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی یا یہ کہ وہ ان کی پرورش ہی نہیں کر سکتا بلکہ وہ صرف اس بات سے دکھی ہوجاتا ہے کہ اس کی شادی کے لیے لڑکے کی جو’ ’بولی“ لگے گی تو میں اتنی دولت کہاں سے لاﺅں گا ؟اسی لیے اگر لڑکا پیدا ہوتا ہے تو والدین سوچتے ہیں کہ چلو اب تو10 ،20 لاکھ”محفوظ“ ہوگئے۔
قیمت تو جانوروں کی لگائی جاتی ہے انسانوں کی نہیں۔اگر کوئی اپنی قیمت لڑکی کے گھر والوں سے وصول کرتا ہے تو اس سے زیادہ کیا ذلیل حرکت ہو سکتی ہے؟ایک حدیث میںمحمد کریمﷺ نے فرمایا:”الید العلیا خیر من الید السفلٰی“(بخاری:۷۲۴۱)”اونچا ہاتھ(دینے والا ہاتھ) نچلے (لینے والے ہاتھ)سے بہتر ہے“لیکن اگر شوہر بیوی کے گھر والوں سے الٹا لے تو وہ کیسے بیوی سے بلند رتبہ اور عزت والا ہو سکتا ہے؟اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً سبھی اپنی بیوی یا بہو سے نالاں ہیں کہ وہ ان کی عزت نہیں کرتی ، محبت نہیں کرتی یا نافرمانی کرتی ہے۔پھر اس کو’ ’راہِ راست“ پر لانے کے لیے تعویذگنڈھے ، دعااور نہ جانے کہاں کہاں سر مارے جاتے ہیں ۔مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ ”بولی“ میں بک چکے اور آپ کے والدین نے آپ کو بیچ دیا ، بیوی اور اس کے گھر والوں نے آپ کو خرید لیا تو اب وہ آپ کی بات بھلا کیوں اور کس لیے مانے گی؟اور آپ کی مرضی و خواہش کے مطابق کیوں کر رہے گی؟
دوسری بات یہ ہے کہ جب آپ نے بیوی کے والدین کی پرواہ نہ کی ، جہیز مانگا، جس کی وجہ سے وہ قرض دار ہو گئے اور تکلیفیں اٹھا رہے ہیں تو اب آپ اس سے یہ کیوں امید رکھ رہے ہیں کہ وہ آپ اور آپ کے والدین کا احترام کرے گی اور خوش رکھے گی؟یہ تو ناممکن ہے۔ایسا تو تب ہوگاجب آپ اس کو اور اس کے والدین کو جہیز یا دوسرے مطالبات کے ذریعہ تکلیف نہ دیتے تو وہ بھی آپ کے والدین کواپنا سمجھتی ،بیٹی بن کر رہتی اور خدمت کرتی۔لالچ میں ماں باپ بڑھاپے میں بھی”جو توبہ استغفار کا وقت ہوتا ہے “دوزخ کی آگ اور اللہ تعالی کی لعنت کو بصدِ شوق خرید لیتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ بعض ”دین دار لوگ‘ ‘جہیز لینے میں بھی حیلے بہانے نکال لیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو’ ’دین پر گہرا علم‘ ‘رکھتا ہے۔
ایسے لوگ نکاح کی تقریب مسجدوںاور دینی مجلسوں میں رکھتے ہیں اور بڑے بڑے علمائے کرام سے نکاح پڑھواتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جہیز کے سخت مخالف ہیں اور سادگی کا مکمل نمونہ پیش کر رہے ہیں مگر اندر ہی اندر لین دین طے کر لیا جاتا ہے اور شادی سے کافی پہلے یا بعد میں جہیز گھر میں آجاتا ہے۔یاد رہے کہ ایسا کر کے یہ لوگ دو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایک جہیز لینے سے اور دوسرے نفاق اور گناہ پر ظاہری نیکی کی چادر اڑھانے سے ، یقیناً جو کھلی ہوئی بے دینی سے بھی زیادہ مذموم اور ناپسندیدہ ہے بلکہ اس کاشمار توریاکاری میں ہوگاجو شرک کی ایک قسم ہے۔جہیز مانگنا چاہے صراحتاً ہو یا اشارةً، براہِ راست ہو یا بالواسطہ حرام ہے۔اگر مسنون طریقے سے آپ لڑکی کو بہو بنا کر لائیں گے تو وہ اور اس کے گھر والے بھی احسان مند ہوں گے۔لڑکی سسرال والوں کو اپنا محسن تصور کرے گی۔وہ یہ سمجھے گی کہ اپنے ہی دوسرے گھر میں آئی ہے لیکن اگر آپ جہیز کے لیے اسے اور اس کے گھر والوں کو تکلیف دے کر لاتے ہیں، تو اس میں نفرت اور خودغرضی کے جذبات رہیں گے۔یہ تو فطری بات ہے۔جیسے اگر آپ کوکوئی دس روپے کا معمولی قلم ہی تحفہ میں دے تو آپ کے اندر اس کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوگا لیکن اگر آپ وہی قلم اپنے پیسے سے خریدیں گے تو آپ دوکاندار کے شکرگذار نہیں ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں جہیز اور اس جیسی دوسری رسومات کے خلاف مہم چلائی جائے۔باقاعدہ ہر شہر، گاﺅں،ٹاﺅن اورمحلہ کی سطح پراس کے لیے کمیٹیاں قائم ہوں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔جب بغیرکسی سر پیرکے سیاسی پارٹیاںہر گلی کوچے میںبن سکتی ہیں تو کیا یہ کام نہیں ہو سکتا؟ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سامنے قولی نہیں ، عملی نمونہ پیش کیا جائے۔عموماًلوگ بیٹیوں کے معاملے میں تو شریعت یاد رکھتے ہیں لیکن جب بیٹوں کی شادی کرتے ہیں تو اس کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
جہیز کی مخالفت میں دو طبقے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔پہلا طبقہ علماءکرام کا ہے کہ وہ ایسی تقریبات میں نکاح نہ پڑھائیں اورنہ ہی ایسی تقریبات میں شرکت کریں جہاں غیر شرعی رسومات ہو رہی ہوں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ پیش کریں۔ دوسرا طبقہ ان صاحبِ مال کا ہے جو فضول خرچی اور اسراف پر قادر ہوں لیکن وہ سادگی کا نمونہ پیش کریں تاکہ عام لوگوں کو بھی اس کا حوصلہ ملے اور عمل کرنا آسان ہو۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کرتے وقت یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ ڈولی میں گئی ہے تو اب اس کا جنازہ ہی وہاں سے نکلے گا۔بڑے بوڑھے یہی سکھا کر بھیجتے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ عورتیں جلا دی جاتی ہیں تو بھی وہ اپنے شوہر کو بچانے میں لگی رہتی ہیں۔والدین کو چاہیے کہ اس سوچ کو بدلیں اور بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں۔یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ زندگی بھر جانتے بوجھتے سسرال میں ظلم و ستم سہتی رہیں۔
تحریر : محمد عتیق الرحمن
03005098643
03216563157