یہ تقریبا چھ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ وہ سردیوں کے دن تھے۔ دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ کے بہادر گڑھ میں بس سے اترتے ہی 17 سالہ لڑکی نے سب سے پہلے نظر آنے والے ایک راہ گیر سے قریبی تھانے کا پتا پوچھا۔ سامنے ہی تھانہ نجف گڑھ تھا۔ نو فروری سنہ 2014 کی صبح وہ لڑکی تھانے میں موجود تھی۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ روہتک کے راجپال نامی شخص کے پاس اس کے کچھ دستاویزات ہیں، پولیس انھیں وہ دستاویزات دلوا دے۔ انھوں نے اپنے سامنے بیٹھے پولیس والوں کو اپنے اوپر گزرنے والی ظلم و ستم کی ساری کہانی سنا دی کہ کیسے انھیں قید و بند، تشدد اور استحصال کا سامنا رہا۔ پولیس اہلکار اپنی ڈائری میں سب کچھ نوٹ کرتا رہا۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے اس لڑکی نے سونو پنجابن کا نام لیا اور کہا کہ وہ بھی ان سے جسم فروشی کرانے والے لوگوں میں شامل تھیں۔ پولیس نے لڑکی کی شکایت پر ایف آئی آر درج کر لی۔ ہریانہ پولیس جب یہ شکایت درج کر رہی تھی اس وقت دلی کی بدنام زمانہ سیکس ریکٹ کی سرغنہ سونو پنجابن زیر حراست تھیں۔ کچھ مہینوں بعد سونو کا شکار رہنے والی وہ لڑکی غائب ہوگئی۔ لیکن سنہ 2017 میں بہت پراسرار طور پر وہ پھر سامنے آئی اور سونو پنجابن کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔
تین سال بعد دہلی کی ایک عدالت نے انھیں دوبارہ مجرم قرار دیا اور 24 سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ وہ ایک عرصے سے پولیس سے بھاگ رہی تھیں اور ‘گھناؤنے جرائم’ کرنے والی خاتون مجرم کی گرفتاری شہ سرخیوں میں شائع ہوئی۔ جج کے مطابق وہ مہذب سماج میں رہنے کے قابل نہیں تھیں لیکن دہلی میں لڑکیوں کا ریکٹ چلانے والی اس ‘دلال’ نے ہمیشہ یہ دلیل دی کہ وہ ’ستم رسیدہ لڑکیوں کا سہارا رہی ہے۔’ سونو کا یہ بھی کہنا ہے کہ خواتین کا اپنے جسم پر حق ہے اور انھیں اسے فروخت کرنے کا حق ہے، وہ تو صرف اس کام میں مدد کر تی ہیں۔ ’آخر کار ہم سب بھی تو کچھ نہ کچھ بیچ رہے ہیں۔ اپنا ہنر، جسم، روح، پیار اور نہ جانے کیا کیا؟‘ لیکن اس بار ان کی خرید و فروخت کا شکار ایک نابالغ لڑکی تھی۔
سونو پنجابن کو جیل بھیجنے کا فیصلہ سناتے ہوئے جج پریتم سنگھ نے کہا: ‘کسی عورت کی عزت اس کی روح کی طرح قیمتی ہے۔ مجرم گیتا اروڑا عرف سونو پنجابن عورت ہونے کی تمام حدیں توڑ چکی ہیں۔ قانون کے تحت وہ سخت سے سخت سزا دی کی حقدار ہیں۔’ نابالغ لڑکی کی شکایت پر گرفتاری سونو پنجابن کے خلاف درج ایف آئی آر سنہ 2015 میں ہی کرائم برانچ بھیج دی گئی تھی لیکن سنہ 2017 میں جب کرائم برانچ کے ڈی سی پی بھیشم سنگھ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیا تو سنہ 2014 میں گاندھی نگر سے گھر چھوڑنے والی لڑکی کو تلاش کرنے کے لیے ایک ٹیم بنائی گئی کیونکہ تھانے میں شکایت درج کرانے کے بعد ہی لڑکی غائب ہوئی تھی۔ ان کے والد نے اس وقت لڑکی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں ایک اور رپورٹ لکھائی تھی۔ نومبر میں پولیس نے اس لڑکی کو یمنا وہار سے ڈھونڈ نکالا۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ وہیں مقیم تھی۔ اسی دوران سونو پنجابن سنہ 2014 میں ایک کیس میں ثبوت کی کمی کی وجہ سے چھوٹ چکی تھیں لیکن لڑکی کے ملتے ہی سونو کو 25 دسمبر سنہ 2017 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
سزا سنائے جانے کے دن سونو پنجابن نے ایک ساتھ بہت سی پین کلرو کھا کر خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ انھیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا۔ چند گھنٹوں کے بعد ان کی حالت مستحکم ہوئی۔ بھیشم سنگھ نے کہا: ‘انھوں نے سخت سزا سے بچنے کے لیے یہ حرکت کی ہو کہ شاید جج کو قدرے ترس آجائے لیکن جج نے کوئی رحم نہیں کیا۔’
منشیات کے انجیکشن
کیس کی سماعت کے دوران جج نے کہا کہ سونو پنجابن نے متاثرہ بچی کے سینوں پر مرچ پاؤڈر ڈالا تھا تاکہ وہ اس کے قابو میں آجائے۔ اپنی گواہی میں لڑکی نے کہا کہ انھیں منشیات کے انجیکشن دیئے گئے تھے۔ بھیشم سنگھ نے کہا: ‘وہہ گائے اور بھینس میں دودھ اتارنے کے لیے دیا جانے والا انجیکشن تھا۔ یہ جسم کو جلدی تیار کر دیتا ہے۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ سونو کے بے حساب جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے۔ یہ ان کی بے رحمی کے صرف چند نمونے ہیں۔ وہ اس سے زیادہ بے رحم ہوسکتی ہے۔ جس کی شکایت پر سونو پنجابن کو سزا ملی تھی اس لڑکی کو اس نے خریدا تھا۔ ان کے ریکٹ میں بہت سی گھریلو خواتین اور کالج کی لڑکیاں تھیں۔ وہ ان خواتین کی جسم فروشی کے لیے سہولیات فراہم کراتی تھی اور بدلے میں کمیشن لیتی تھی۔ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ دوسرے دلالوں سے کم سن لڑکیوں کو خرید کر اپنے گاہکوں کو فراہم کرتی تھی۔
سونو پنجابن ان لڑکیوں کو فروخت ہونے تک اپنی قید میں رکھتی تھی۔ ان لڑکیوں کو باری باری گاہکوں کے پاس بھیجا جاتا تاکہ دلالوں کو ان کے علاقوں میں سپلائی کا مسئلہ نہ ہو۔ ڈی سی پی سنگھ کے مطابق سونو پنجابن ایک شاطر عورت رہی ہے۔ اسےنہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی افسوس۔ وہ کہتے ہیں: ‘جب میں نے کہا کہ نابالغ لڑکیوں کی خرید و فروخت جرم ہے تو اس نے کہا کہ وہ نہیں جانتی۔ وہ جان بوجھ کر یہ کہہ رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ جو کر رہی ہے وہ غلط ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین ہی خواتین کے خلاف ایسے جرائم کا ارتکاب نہیں کرسکتی ہیں۔’
سونو پنجابن مہذب معاشرے کے قابل نہیں ہیں؟
سونو کو 24 سال با مشقت قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں میں آئی پی سی (انڈین پینل کوڈ) کی دفعات 328، 342، 366 اے، 372، 373 اور 120 بی کے ساتھ غیر اخلاقی تجارت کی روک تھام کے قانون کی دفعات 4 ، 5 اور 6 کے تحت سزا دی گئی سونو کو بچوں کو جنسی جرائم سے حفاظت فراہم کرنے والے قانون پوکسو کے تحت بھی سزا سنائی گئی۔ ایڈیشنل سیشن جج پریتم سنگھ نے سونو کے خلاف سزا سناتے ہوئے ان پر 64 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ عدالت نے سونو کے شریک ملزم سندیپ بیڈوال کو بھی 20 سال قید کی سزا سنائی اور متاثرہ لڑکی کو سات لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کو کہا۔ پولیس کے مطابق سونو پنجابن کا نشانہ بننے والی لڑکی نے 2014 میں اپنی مرضی سے گھر چھوڑا تھا۔ وہ منشیات کی عادی تھی اور وہ یہ کلنک برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کی بہن کی شادی ہونے ہی والی تھی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا ماضی اس رشتے میں رکاوٹ بنے۔ سماعت کے بعد فیصلے کے دوران الپرکس نامی ایک دوا کا ذکر کیا گیا۔ متاثرہ ڈپریشن کا شکار تھی اور وہ دوا کرتی تھی۔ لڑکی نے ایف آئی آر میں الزام لگایا تھا کہ کچھ لوگ اسے دھمکیاں دیتے تھے۔ ایک طویل عرصے تک لاپتہ رہنے کے بعد جب وہ ملی تو ا س کی کاؤنسلنگ کرائی گئی۔ اسے نئی زندگی کی شروعات میں مدد کی گئی۔ اس کی شادی بھی ہوئی۔ اس کا ایک بچہ ہے اور اب وہ اپنے والدین کے ساتھ رہتی ہے۔ شادی کے بعد اس کے سسرال والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ لڑکے کے والدین اس کے ماضی پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ اب فون پر بات نہیں کرتی۔ لیکن تفتیشی افسر پنکج نیگی کے مطابق لڑکی کو لگتا ہے کہ وہ آخر کار جیت گئی ہے۔ اسے راحت محسوس ہو رہی ہے۔
میں نے سونو پنجابن کو پہلی بار سنہ 2011 میں دہلی کی ایک عدالت میں دیکھا تھا۔ وہ جج کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی تھی۔ اس کے بال بکھرے تھے۔ وہ تھکی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ وہ نشہ چھوڑنے کے لیے ایک کورس کررہی ہے اور اپنا زیادہ تر وقت تہاڑ جیل میں اپنے سیل میں سوتے ہوئے گزارتی ہے۔ اس دن عدالت کی سماعت کے بعد انھین دوبارہ تہاڑ لے جایا جا رہا تھا۔ سونو پنجابن سیدھے بس میں داخل ہوئی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ میں پارکنگ کے قریب تھی۔ جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا، میں نے اس سے کہا کہ وہ میرا نام اپنے ملنے والوں کی فہرست میں ڈال دے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جولائی کا ایک گرم دن تھا۔ اس نے میرا نام پوچھا۔ پھر بہت دن تک میں تہاڑ میں فون کرتی رہی کہ کیا سونو پنجابن سے ملنے والوں کی فہرست میں میرا نام ہے؟ وہاں سے وہ بتاتا کہ سونو کی فہرست میں شامل چھ ناموں میں میرا نام نہیں ہے۔
گرفتاری کے وقت عمر 30 سال تھی
سونو پنجابن کیس کے تفتیشی افسر کیلاش چند سنہ 2011 میں سب انسپکٹر تھے۔ مہرولی پولیس اسٹیشن میں گفتگو کے دوران بتایا کہ انھوں نے سونو پنجابن کو پکڑنے کے لیے کس طرح کا جال بنایا ہے۔ کیلاش چند کہتے ہیں کہ وہ سونو سے رات بھر حراست میں بات کرتے تھے۔ سونو کو پانچ دن تھانے میں رکھا گیا تھا۔ کیلاش چند سونو کے لیے سگریٹ، چائے اور کھانا لاتے تھے اور وہ انھیں اپنی کہانی سناتی تھی۔ مہرولی میں جب کیلاش چند نے سونو پنجابن کو پکڑا تھا تو وہ اس کا حسن دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے۔ انھوں نے موبائل فون کیمرے کے ساتھ اس کی تصویر بھی لی۔ بہر حال اب وہ دھندلی ہو چکی ہے۔ سونو کی عمر سنہ 2011 میں گرفتاری کے وقت 30 سال تھی۔ جسم فروشی کے میدان میں اترنے کے بعد صرف ڈیڑھ سال بعد انھوں نے وہ کام چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت تک اپنا ایک سنڈیکیٹ چلانے کے لیے وہ پورا نیٹ ورک بنا چکی تھیں۔
پولیس نے ایک ڈائری بھی برآمد کی جس میں سونو کے صارفین کے نام اور رابطے تھے۔ ان کی موبائل فون بک بھی برآمد کی گئی تھی۔ سونو کے ریکٹ میں شہر کے ایلیٹ کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں بھی تھیں۔ وہ ان کے لیے کانٹریکٹ پر کام کرتی تھی۔ سونو نے کیلاش چند کو بتایا کہ ‘جسم فروشی عوامی خدمت ہے۔ ہم مردوں کو نجات کا راستہ فراہم کرتے ہیں۔ ہم خواتین کو ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں بھی مدد کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس آپ کے جسم کے سوا کچھ فروخت کرنے کے لیے نہین تو آپ اسے بیچ دیں۔ لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ فروخت کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ساری گفتگو تحریری طور پر ریکارڈ کی گئی تھی اور چارج شیٹ میں شامل کی گئی تھی۔ ولیس سے گفتگو میں وہ اکثر دلیل دیتیں کہ وہ معاشرے کو ایک اہم خدمت مہیا کرا رہی ہیں۔ اگر وہ اور ان جیسی عورتیں نہ ہون تو پتہ نہیں کتنے ریپ ہوں۔
وہ کہتی تھی کہ ہوس ایک بازار ہے۔ اگر یہ بازار نہ ہو تو معاشرے میں تشدد ہوگا۔ اخلاقیات کو بہت پہلے پیچھے چھوڑ آئی تھیں۔ اپنی پرانی نوٹ بک میں مجھے پولیس سے بیان کردہ سونو پنجابن کی ایک کہانی ملی۔ سونو نے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا جس کا شوہر اسے پیٹا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ زبردستی سیکس کرتا تھا۔ اسے پھوٹی کوڑی نہیں دیتا۔ اس کا ایک بچہ تھا جسے وہ اچھی طرح پڑھانا اور لکھنا چاہتی تھی۔
اس نے کیلاش چند سے کہا: ‘آخر اس عورت کا کیا قصور ہے۔ وہ شادی شدہ ہے اس لیے اس کی ساری خواہشات کو دبا دو۔ وہ اس مرد کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئی ہے جو اسے مارتا ہے۔ اس سب سے بچنے کے لیے اس کا جسم ہی اس کا واحد ذریعہ ہے۔ جبکہ سماج کی نظر میں یہ برا کام ہے۔’ پولیس کے مطابق ‘سونو پنجابن تیز طرار تھیں۔ اچھے کپڑے پہنتی تھیں۔ خود پر کافی اعتماد تھا۔ انھیں سنہ 2017 میں ایک بار پھر گرفتار کیا گیا۔ پولیس کو معلوم تھا کہ راز جاننا ہے تو سونو کی خاطر داری کرنی پڑے گی۔ ریڈ بل ڈرنکس، سینڈویچ، برگر اور پیزا اس کے پاس لائے جاتے تھے۔ کیلاش چند کی طرح اس بار بھی پولیس ان کے لیے سگریٹ خرید کر لاتی تھی۔ اس بار بھی اس نے کہانی سنائی اور جسم فروشی کی حمایت میں اپنے پرانے دلائل دیئے۔ انھوں نے اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکار کردیا کہ وہ گمشدہ نابالغ لڑکی کو جانتی ہے۔ لیکن اس بار قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔’ سونو پنجابن کو پہلی بار غیر اخلاقی تجارت کی روک تھام کے قانون کے تحت سنہ 2007 میں پریت وہار میں پکڑا گیا تھا۔ وہ ضمانت پر رہا ہوئیں۔ ایک بار پھر سنہ 2008 میں ایک پرانے جرم میں پکڑی گئیں۔
سونو کی نظر میں جِسم فروشی ’عوامی خدمت‘
سونو پنجابن سنہ 2019 میں پیرول پر رہا ہوئیں۔ اس دوران اپنے تمام ٹی وی انٹرویوز میں انھوں نے کہا تھا کہ پولیس انھیں ہراساں کررہی ہے۔ کسی لڑکی نے آن ریکارڈ نہیں کہا کہ وہ دلال ہیں۔ وہ صرف لوگوں کو سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ وہ ایسی خواتین کی امداد کر رہی ہین جو اپنی خراب شادیوں سے بچنے کے لیے کوئی راہ تلاش کر رہی ہیں۔ وہ اپنے گھروں میں پریشان ہیں۔ وہ ان خواتین کی مدد کررہی ہیں جو زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی ہیں۔ انھیں پتہ تھا کہ ان کی کہانیاں شہ سرخیاں بنیں گی۔ وہ جرم اور متاثرہ دونوں کے کرداروں سے واقف تھیں۔ وہ دونوں رہ چکی تھیں۔ سنہ 2013 میں بننے والی فلم ‘فوکرے’ اور 2017 میں ‘فوکرے ریٹرن’ میں بھولی پنجابن کا کردار ان کی کہانی سے متاثر تھا۔ دونوں کردار اداکارہ ریچا چڈھا نے ادا کیے تھے۔
سونو پنجابن کو جب ایم سی سی اے قانون کے تحت گرفتار کیا گا تو آر ایم طفیل نے ان کا مقدمہ لڑا اور وہ بری ہوگئیں۔ 24 سال کی سزا کے فیصلے کے بعد انھوں نے کہا یہ ایک طویل وقت ہے۔ اس معاملے میں بھی انھوں نے سونو کی وکالت کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ طفیل کہتے ہیں: ‘دنیا کا سب سے قدیم پیشہ بھیک مانگنا اور جسم فروشی ہے۔ کسی کو بھی اس کے بارے میں بخوبی علم نہیں ہے۔ ہر کوئی اخلاقیات کی بات کرتا ہے۔ اب یہ ان چیزوں سے چڑھ ہوتی ہے۔’
‘سونو کی سزا طویل ہے’
مشرقی اور جنوبی دہلی میں کروڑوں روپے کی مالیت کا جنسی ریکٹ چلانے والی سونو پنجابن سنہ 2011 میں گرفتاری کے بعد سے ہی خبروں میں ہیں۔ اخبارات میں ان کے بارے میں شائع ہونے والی کہانیوں کے مطابق ان کا طرز زندگی پرتعیش رہی ہے۔ ان کے بہت سے عاشق اور کم از کم چار شوہر رہے ہیں۔ سب بدنام گینگسٹر رہے ہیں۔ پولیس مقابلے میں ان میں سے بہت سے افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ سونو نے ان تعلقات کو ‘شادی’ تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پولیس نے ہی ان کا نام ‘سونو پنجابن’ رکھ دیا تھا۔ بچپن میں ان کے والدین انھیں سونو کہتے تھے۔ جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے ایک شوہر ہیمنت عرف سونو کا نام لے لیا تھا۔ سنہ 2003 میں ان کے ایک شوہر وجئے کی یوپی میں پولیس مقابلے میں موت ہوگئی تھی۔ اس کے بعد وہ اپنے دوست دیپک کے ساتھ رہنے لگیں۔ دیپک گاڑیاں چوری کرتا تھا۔ گوہاٹی میں پولیس نے دیپک کو ایک مقابلے میں مار ڈالا۔ اس کے بعد وہ دیپک کے بھائی ہیمنت عرف سونو کے ساتھ رہنے لگین۔ ہیمنت ایک مجرم تھا۔ اس نے اپنے بھائی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بہادر گڑھ میں ایک شخص کو ہلاک کر دیا۔ سونو کے مطابق ہیمنت بھی ایک مقابلے میں مارا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ سونو کی موت کے بعد وہ بے سہارا محسوس کرنے لگی۔ ان کے دونوں بھائی بے روزگار تھے۔ والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ اپنے بیٹے اور والدہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی۔ اسی کے ساتھ ہی وہ کال گرل بن گئی اور جسم فروشی کے کاروبار میں قدم رکھا۔ سونو اس سے انکار کرتی ہے کہ اس نے مزید شادیاں کیں۔ لیکن پولیس اور میڈیا کے مطابق وجے کی موت کے بعد سونو نے چار شادیاں کیں۔ پانچویں شوہر کے علاوہ ہر ایک علیحدہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ تفتیشی افسر پنکج نیگی کہتے ہیں: ‘سونو کے فون میں ان لوگوں کے ساتھ ان کی تصویر ہے۔ ان میں وہ سندور لگائے ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ان مباشرت کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شوہر اور بیوی ہیں۔’
گیتا مگّو سے سونو پنجابن تک کا سفر
سونو پنجاب سنہ 1981 میں دہلی کی گیتا کالونی میں پیدا ہوئيں۔ ان کا نام گیتا مگّو تھا۔ ان کے دادا بطور پناہ گزین پاکستان سے آئے تھے اور روہتک میں آباد ہوئے تھے۔ ان کے والد اوم پرکاش دہلی آئے تھے اور آٹو رکشہ چلاتے تھے۔ اس کا کنبہ مشرقی دہلی میں گیتا کالونی میں رہتا تھا۔ سونو کے تین بہن بھائی تھے۔ ایک بڑی بہن اور دو بھائی۔ سونو کی بڑی بہن بالا کی شادی ستیش عرف بوبی سے ہوئی تھی۔ ستیش اور اس کے چھوٹے بھائی وجئے نے اس شخص کو مار ڈالا تھا جس سے ان کی بہن نشا کا افیئر تھا۔ اس معاملے میں دونوں جیل گئے۔ پرول پر رہا ہونے کے بعد گیتا نے سنہ 1996 میں وجئے سے شادی کر لی تھی۔ جب میں سنہ 2011 میں پہلی بار ان کے گھر گئی تو پہاڑوں کے سامنے کھڑے وجے کی تصویر دیکھی۔ گیتا نے وجئے سے عشق میں گرفتار ہو کر شادی کی۔ اس وقت اس کی عمر صرف 15 سال تھی۔ اس کے بعد ان کا ایک بیٹا ہوا۔ جب میں ان کے گھر گئی تو اس کا بیٹا نو سال کا تھا۔ اس وقت وہ اپنی ماں کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ کھلونا کار لانے والی تھی۔ اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی جیل سے فون کرتی ہیں۔ بچے کی عمر اب 17 سال ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ماں کے بارے میں جانتا ہے۔ سونو کے اہل خانہ نے ایک بیٹی کو بھی گود لیا تھا۔ لیکن وجئے کی موت کے بعد گود دینے والے اسے لے گئے۔ شادی کے سات سال بعد وجئے کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس وقت وہ پرول پر باہر تھا۔ سونو پنجابن کے والد 2003 میں انتقال کر گئے۔ اس کے بعد اس نے پریت وہار میں بیوٹیشن کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ وہاں رہتے ہوئے اس کی اپنی ایک ساتھی کارکن نیتو سے ملاقات ہوئی جس نے اسے جسم فروشی کے کاروبار سے متعارف کرایا۔
اس کے بعد وہ روہینی میں رہنے والی خاتون کرن کے لیے جنسی کارکن کے طور پر کام کرنے لگيں۔
ابتدائی طور پر اس کاروبار کے لیے انھوں نے پریاورن کمپلیکس کے بی بلاک میں ایک کمرہ لیا۔ اس کے بعد فریڈم فائٹر کالونی، مالویہ نگر اور شوالک میں اپارٹمنٹ کرایہ پر لیا۔ انھوں نے دہلی کے سیدالعجائب میں انوپم انکلیو میں ایک اپارٹمنٹ خریدا۔ یہ فلیٹ سنجے مکھیجا کے نام پر خریدا گیا تھا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق سنجے مکھیجا سونو پنجابن کا پرانا ساتھی ہے۔ سونو پنجابن کے پورے کیریئر کے دوران راجو شرما عرف اجے ان کا ساتھی تھا، یعنی پہلے جنسی کارکن کے طور پر اور پھر ایک اعلی طبقے کے دلال کی حیثیت سے۔ راجو پہلے سونو کا باورچی تھا اور پھر بعد میں ڈرائیور کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ وہ دلالی کا کام بھی کرتا تھا اور دو بار سونو پنجابن کے ساتھ گرفتار ہوا تھا۔ سونو کے مطابق یہ ایک بہت ہی اچھا کاروبار تھا۔ سونو نے اپنے مؤکلوں کے لیے باورچی اور کلینر بھی رکھے تھے۔ جیسے جیسے یہ کاروبار بڑھا اس کا ساتھی راجو آؤٹ اسٹیشن گاہکوں کا کام دیکھنے لگا۔ ان دونوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مختلف شہروں میں اپنا کام پھیلادیا۔
پولیس سے گفتگو کے دوران سونو پنجابن نے ان دلالوں کا نام دیا تھا جو مختلف علاقوں کے انچارج تھے۔ اگرچہ ان کا آپس میں مقابلہ تھا لیکن وہ مل کر کام کرتے۔ مثال کے طور پر اگر سونو پنجابن کا کسی علاقے میں مؤکل ہے اور وہ وہاں اس کے لیے کسی لڑکی کا بندوبست نہیں کر سکتی تو وہ دوسروں سے اس کا بندوبست کرنے کے لیے کہے گی۔ ضرورت کے وقت دوسرے دلال بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ تاہم ان کے مابین زبردست مقابلہ تھا۔ نیگی کے مطابق جب سونو پنجابن نے یہ کاروبار سنبھالا تو اس نے اپنے نیٹ ورک کے لیے سیکیورٹی کے لیے آمدنی کا 60 فیصد کمیشن لینا شروع کیا۔
ان کی کار رات میں شہر میں 500 کلو میٹر دوڑتی تھی۔ یہ گاڑی لڑکیوں کو ان کے مقام سے لیتے اور گاہکوں تک چھوڑتی۔ سونو ان لڑکیوں سے سب سے زیادہ سے منافع کماتی جسے وہ اپنی قید میں رکھتی تھی۔ وہ ان لڑکیوں کو خریدتی تھی۔ ایسی ہی ایک نابالغ لڑکی نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک اور ہائی پروفائل دلال ایچھادھاری بابا اس وقت تہاڑ جیل میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سونو نے پولیس کو سراغ دے کر تیز طرار ہودہ خودساختہ بابا ایچھادھاری کو پکڑوایا تھا۔
بھیشم سنگھ کہتے ہیں: ‘اس قسم کے جرم میں جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو کوئی نہ کوئی اسے پُر کر دیتا تھا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ایچھادھاری بابا کی گرفتاری کے بعد سونو نے اپنا کاروبار بڑھایا۔’ سونو پنجابن کی گرفتاری کی خبریں سرخیاں بن گئیں۔ ان کی تصاویر میں گلابی کارڈیگن اور نیلی جینز میں ان کی تصاویر میڈیا میں چھا گئيں۔ اپنے دوسرے انٹرویو میں وہ چمڑے کی جیکٹ پیلے رنگ کے جمپر اور شال میں نظر آئیں۔ ان کا چہرہ ٹی وی چینلز پر دکھایا جارہا تھا۔ ان کے جرم کو بیان کیا جارہا تھا اور انھیں منظم جنسی ریکیٹ کی ‘ملکہ’ بتایا جارہا تھا۔ سونو پنجابن کی گرفتاری دوسروں کو اس طرح کے جرائم سے روکنے کے لیے کام کر سکتی ہے۔ لیکن پولیس کا ماننا ہے کہ ایسے جنسی کاروبار چلانے والوں کو عدالت میں لانا مشکل کام ہے۔ بھیشم سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر وہ نابالغ لڑکی آگے نہ جاتی اور اس کے خلاف شکایت درج نہ کراتی تو سونو پنجابن کو پکڑنا مشکل ہوتا۔