تحریر : انجینئر افتخار چودھری
جدہ میں مقیم پاکستانی فضل سبحان جو اسکول مینجمینٹ کمیٹی چیئرمین تھے۔انہیں کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے پر جدہ قونصل خانے میں بیٹھے سیاہ رو کوتاہ قد افسران نے گرفتار کروا دیا ہے۔آج اس کے بیٹے کی ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف سے اپیل کر رہا ہے کہ میرے باپ کو رہا کریں۔معصوم بچہ ہے اسے یہ علم نہیں کہ اسی وزیر اعظم کا بیٹا حسین نواز ان سیاہ کرتوتوں والے افسران کا ہیڈ ہے۔اس کا جرم یہ ہے کہ اس کے ٹرانسفر کے کاغذات پراسس میں ہیں۔سعودی اداروں کو اسکول کے احاطے میں داخلے کی اجازت انہی افسران نے دی اور فضل سبحان کو گرفتار کرا دیا۔مجھے ٢٠٠٢ کے وہ دن یاد آ گئے جب اسی میاں نواز شریف کے حامیوں کو جنرل مشرف کے پالتو جرنیل اسد درانی نے گرفتار کروایا جس میں ارشد خان قاری شکیل نعیم بٹ آفتاب مرزا خواجہ امجد ڈاکٹر قسیم عظمت نیازی شامل تھے میں نے اس فعل کی مذمت کی اسکول میں قونصلیٹ کی غیر قانونی حرکتوں پر چلایا اور مجھے بھی دھر لیا گیا۔میں تو ترحیل کی بیرک نمبر ٣ میں تھا۔
میری رہائی کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ایک دن میری بیگم نے میرے بیٹے شکیل سے کہا کہ یہ خط جنرل درانی جو سفیر پاکستان تھے انہیں دے دو۔جس میں لکھا ہوا تھا کہ جناب سفیر پاکستان میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے خاوند کو بے گناہ گرفتار کروا دیا ہے آپ نے۔آپ سے اپیل ہے انہیں چھوڑ دیا جائے۔میرے بیٹے نے خط پھاڑ دیا اور کہا کہ نہ ہم چھوٹے ہیں اور نہ ہی بزدل۔ابو نے کوئی جرم نہیں کیا جو آپ اس قسم کے بے غیرتوں سے بھیک مانگ رہی ہیں۔اس نے خط پھاڑ دیا اور بلک بلک کے رونے لگا۔میں نے فضل سبحان کی بیٹی کی ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میں وہ پاپا کے لئے اپیل کر رہی ہے۔
میری بیٹی بھی اس وقت سات سال کی تھی وہ بھی ماں کی جھوٹ تسلیوں پر وقت گزار گئی۔کہا کرتی تھی سب کے پاپا جمعرات کو اپنے بچوں کو سمندر پر لے جاتے ہیں میرے پاپا مدینہ سے کیوں نہیں آتے۔یہ بڑے دکھ بھرے دن ہوتے ہیں ۔ہم ہر نماز سے پہلے ایک پارہ پڑھتے تھے اور ایک نماز کے بعد۔اس طرح تین دنوں میں قران پاک ختم کر لیتے تھے۔عنبر ٣ کی صفائی ہم مل جل کر کرتے تھے۔سب سے صاف اور ستھری بیرک یہی تھی۔خواجہ آصف کا کزن خواجہ امجد بھی ایک بار ہماری بیرک میں آیا دیکھ کر خوش ہو گیا۔
ایک دن میں نے صبح سویرے وہ خواب حبیب اللہ بھٹی کو سنایا جو میرے دوست نور جرال کا شاگرد تھا،خواب میں دیکھا کہ میں گجرانوالہ سے لاہور ایئر پورٹ جا رہا ہوں جہاں سے مال شروع ہوتا ہے وہاں سے راستہ نہیں مل رہا تھا میں نے کہامجھے جانے دیں مجھے جدہ جانا ہے۔انہوں نے کہا جدہ سے مہمان آ رہے ہیں جن میں میاں نواز شریف بھی ہیں انہیں آنے دیں یا آپ کو جانے دیں۔یہ خواب میں برادر نور جرال کے شاگرد حبیب اللہ بھٹی کو سنایا جو سرور پیلیس میں ہوا کرتے تھے۔میں فجر کی نماز پڑھ کر سو گیا اچانک اس وقت آنکھ کھلی جب مسعود پوری جو میرے ساتھ والے گدے پر ہوا کرتے تھے انہوں نے جگایا کہ میاں صاحب سے بات کریں ۔میاں نواز شریف صاحب نے سلام دعا کے بعد خواب کی تفصیل سنی پوچھا کے رات کو نماز پڑھ کر سوئے تھے؟انہوں نے متعدد سوال کئے اور آخر میں کہا انشاء اللہ میں پاکستان جلد جائوں گا اور لاہور ہی اتروں گا۔
اور پھر ہوا بھی یہی۔جب میں نون لیگ میں تھا تو دوست کہا کرتے آپ کون سے ولی اللہ ہیں؟خصوصا جب میں انہیں کہتا کہ دیکھنا میاں نواز شریف اسلام آباد نہیں آئیں گے۔اور وہی کچھ ہوا میں ہنس کے کہتا گجر پچاس سے اوپر چلا جائے تو آدھا ولی ہو جاتا ہے۔خیر یہ ایک واقعہ تھا جو شیئر کر دیا۔میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ بقول شخصے وقت کی خوبی یہ ہے کہ اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے۔٧١ دن اس حبس آلود بیرک میں گزارنے کے بعد میں بچوں سمیت پاکستان چلا آیا۔وہ شہر مجھ سے زبردستی چھڑوا دیا گیا قونصلیٹ میں بیٹھے ایک مونچھوں والے کرنل کچھ ننگ ملت سیولین اور ریاض میں بیٹھا فرعون اسد درانی نے بہت سے پاکستانیوں کا معاشی قتل کر دیا عظمت نیازی کے پاس سینکڑوں میں ملازم تھے۔
مسعود پوری کو کنگال کر دیا خواجہ امجد کی فیکٹری کفیل پی گیا ڈاکٹر قسیم کا کروبا ختم ہو گیا وسیم صدیقی کی تیس ہزار کی نوکری گئی میں بھی بے روزگا ر ہوا معیم بٹ اجڑ گیا جو حسین نواز کا چہیتا تھاھضرت علی کا قول ہے برے وقتوں میں کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنوں میں چھپے غیروں اور غیروں میں چھپے اپنوں کو آشکارا کرتے ہیں۔مجھے بھی علم ہوا میں نے بھی جانا۔چودھری اکرم گجر جس سے میری نہیں بنتی تھی میرے لئے تڑپ اٹھا اور جن سے بہت بنتی تھی اسے میں اس وقت فون کیا جب وہ جدہ ایئرپورٹ سے پاکستان جا رہا تھا۔
کچھ لندن بھاگ گئے کچھ میزوں کے نیچے چھپ گئے،کچھ نے کرنل طارق کے بچوں کی فیسیں بھریں۔ڈٹا رہا تو یہ فقیر گجر اور ارشد خان مرحوم جس نے جنرل درانی کے ایک افسر سے کہا کہ پاکستانی قونصلیٹ پر لہرائے پرچم کو سلام اس کا جھنڈہ آنکھوں پر ڈنڈہ ان بے غیرتوں کی نذر کر دوں گا۔وہ فقیر چند ماہ پہلے مر گیا جس نے میاں فیملی کے لئے اپنا خاندان تباہ کر دیا قاری شکیل کی طرح اسے بھی میائوں نے نظر انداز کئے رکھا۔ابن فضل سبحان آپ چھ بھائی اور تین بہنوں اور اپنی ماں کے ساتھ مکے چلے جائو۔تھام لو دامن اللہ کا ہاتھ رکھ دو دہلیز کعبہ سچے دل سے جھولی پھیلا دو مقام ابراہیم پر وہی آپ کا حامی ہو گا وہی آپ کی مدد کرے گا۔پاگل بچے ان سے کیا مانگتے ہو جو اپنے گھر کا کھانا بھی نہیں کھاتے۔ان کے لئے مکہ ہوٹل اشرفیہ کے کھابے ہیں وہ پہلے بھی شہباز دین بٹ کے گھر سے اوجھڑی کا سالن منگواتے تھے
انجینئر افتخار کے پالک گوشت کو پسند کیا کرتے تھے۔نہ مانگ ان سے کچھ مانگنے والے اگر کھرب پتی بھی ہو جائیں تو روپیہ دیتے ہوئے ان کی چیخیں نکلتی ہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ احسن رشید نے مجھے اس دلدل سے نکال لیا اور میں ایک فقیر جس کا نام عمران خان ہے اس کے ساتھ ہو لیا ورنہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا ایک مصاحب ایک وزیر کسی کارپوریشن کا چیئرمیں اپنے دوستوں صدیق الفاروق سعید الہی کی طرح۔
ٹھہر کے ظلم کے اب دن تھوڑے ہیں۔انشاء اللہ آپ کے والد جلد رہا ہوں گے۔ایک اچھا وکیل کر لو اگر نہیں تو میں اپنے دوست محمد الغامدی کو کہتا ہوں۔تمہارا کیس لڑے گا۔وقت کی ایک خوبی کمال کی ہے وہ جیسا بھی ہے گزر جاتا ہے۔ضمیر کے قیدیوں کے بیٹے روتے تو ضرور ہیں مگر خط پھاڑنے کے بعد۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری