تحریر : شاہ بانو میر
عمران خان نے ثابت کیا اپنی پارٹی کے نظام سے اپنی ذات کے ہر فعل سے کہ یہ پارٹی بلاشبہ عام روایتی سیاسی جماعت نہیں ہے٬ کم سے کم مرکزی ممبران کی حد تک٬ سب کے سب عمران خان کی سوچ کی عکاسی دکھائی دیتے ہیں٬ گو کہ یہ عمل سمندر پار ذرا محدود اور قدرے الگ تھلگ دکھائی دیتا ہے جہان محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کی وسعت لامحدود سے قدرے محدود ہے٬ وجہ شائد بیرون ملک مقیم ہونے کی وجہ سے تعداد کی کمی ہے٬ عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے ٬ پہلے پارٹی کو اندر سے ایک باقاعدہ نظام کے تحت مضبوط کیا بنیاد کی پہلی اینٹ اگر مضبوطی سے جُڑ جائے تو باقی ماندہ اینٹیں بآسانی مضبوطی پکڑ لیتی ہیں٬ اور اُن پر قائم ہونے والی عمارت موسمی اثرات کی شدت کو بآسانی سہہ کر معمار کی مہارت کو داد دیتی دکھائی دیتی ہے٬
عمران خان کی نیت کا اخلاص تھا س نے پاکستان جیسے ملک میں مدتوں سے محو خواب عوام کو بے جگری سے جاگنے کی وارننگ دیتے ہوئے بتایا کہ اگر اب اس کے ساتھ نہیں چلے اپنی ذات کی پہچان حاصل کرنے کیلئے مافیا کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو اس کے بعد ان کی نسلوں کا صدیوں تک مقدر صرف اور صرف غلامی ہے ٬ یہ قوم بڑی غیور اور باہمت ہے ٬ کیسی کیسی آفات صدمات مصائب آلام سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ٬ اس کے باوجود اس قوم کو جب جب دلیر بے باک باہمت حوصلہ مند لیڈر مانندِ جناح نصیب ہوا ہے تو اس سادہ لوح قوم نے اپنی بے بسی لاچاری کا چوغہ اتار پھینکا ہے٬ اور اپنے حقوق کو حاصل کر کے دنیا کے نقشوں کو از سر نو تعمیر کیا ہے٬ ایسی قوم کو عمران خان خوابِ غفلت سے جگا کر ان کو ان کے ملک کی باگ دوڑ پھر سے سنبھالنے کی کھلے عام دعوت دے کر عرصہ دراز سے سیاسی افق پے تسلط جمائے خاندانی وڈیروں جاگیرداروں کی راتوں کی نیندیں حرام کر دیں ٬ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جیسے انسانوں کا نہ ختم ہونے والا سیلاب تھا جو گھروں سے نکل کر ایک ساتھ ایک جگہہ جمع ہوتے رہے اور نا عاقبت اندیش حکمرانوں کو جھوٹ کی قلعی کھل جانے پر مستعفی ہونے کا کہتے رہے٬ پڑھے لکھے باشعور مہذب انداز میں جو آج کی ترقی یافتہ دنیا کا حسن ہے اسی انداز میں چار مہینے تک پُرامن احتجاج کر کے دھاندلی کے خلاف انکوائری کمیشن کا مطالبہ کرتے رہے ٬ اسی دوران کئی بار پلاننگ کو تبدیل کر کے نے اچھوتے انداز میں مزید دلچسپی اور توجہ کیلئے دھرنوں کے ساتھ مظاہروں کا نیا پلان سامنے آی ٬
مگر ایک سانحہ پشاور میں ایسا ہوتا ہے کہ جس کی وحشت بربریت اور سفاکی کو تقریبا ایک ماہ کے بعد بھی ہر پاکستانی اپنے دل کے اندر سسکی صورت بار بار سنتا ہے٬ خوبصورت نٹ کھٹ ماؤں کے شہزادے حسب عادت اُس صبح بھی ماؤں کو قدرے ستاتے تنگ کرتے ڈانٹ ڈپٹ کھاتے ہنستے مُسکراتے ماؤں کی دعاؤں کے سائے میں سکول سدھارے لیکن اُس روز موت کی چاپ بڑی سرعت کے ساتھ ان کی طرف ایسے بڑہی کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی تاریخ کی المناک کہانی معصوم بچوں کے خون سے کہانی لکھی گئی جسے ہمیشہ گھروں میں بہت عرصے تک سنایا جائے گا ٬ اور نے پاکستان کے ان فرشتوں کا ذکر بار بار کیا جائےگا٬ خیبر پختون خواہ وہ صوبہ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے گو اشتراکی ہے لیکن بہر حال ہم لوگ ہی وہاں کے معاملات کے ذمہ دار ہیں٬ عمران خان وہ حق و سچ کی آواز جس نے سوئے ہوئے خوابیدہ لوگوں کو جھنجھوڑ کر جگایا ٬ بیدار کیا ٬ اچھے برے غلط صحیح کا درست انداز سمجھایا ٬ اب جب کہ عوام باشعور ہو گئے ہیں تو وہ غلطیاں وفاق کی تو پکڑیں گے لیکن وہ چھوڑیں گے ہمیں بھی نہیں٬ آج آرمی پبلک سکول کے دورے کے موقعے پر والدین کی جانب سے عمران خان صاحب پر تنقید اور احتجاج نے جیسے سیاست کی نئی کروٹ بدلی٬ ہم نئی سوچ کے خواہاں ہیں ٬ نئے نظام کے والی ہیں تو پھر ہمیں اس نئے نظام کی نئی سوچ کا بھی احترام کرنا ہوگا٬ اگر سانحہ لاہور کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر ے اور وہ مستعفی ہوں یہ ہم کہتے رہے تو آج ہمیں کچھ نہ کچھ تو سانحہ پشاور پے کہنا ہوگا تا کہ عوام خصوصا وہ والدین جن کے جگر گوشے اس ملک کے نئے ہونے کی مدت میں خالی ہوگئے اولاد سے ان کو کچھ تو تسلی دلاسہ پُرسہ ملے٬
آج ایک خاتون کو دیکھا جو غم سے نڈھال چیخ چیخ کر عمران خان کیلیۓ کچھ نا مناسب باتیں کہہ رہی تھیں ٬ پھر ایک پریس کانفرس ہوئی جس میں والدین کی جانب سے عمران خان صاحب سے معافی کا مطالبہ کیا گیا٬ وجہ یہ بتائی گئی کہ ان کے پُرامن احتجاج کو سرکاری مشینری نے منتشر کرنے کی کوشش میں زدوکوب کیا ہے ٬ ان ادھ موئے لوگوں کو کسی طور قبول نہیں٬ عمران خان نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 6 سال کے بعد ایک خواب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے صحابہ اکرام کے ہمراہ عمرہ کررہے ہیں٬ خوشی خوشی اعلان کر دیا کہ تیاری پکڑو ہم عمرہ کرنے جا رہے ہیں٬ 6 سال سے اپنی سرزمین سے دور صرف اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاکیلئے ہر طرح کی تنگی ترشی کاٹنے والے صحابہ اپنے عزیزو اقارب گلی کوچوں کو دیکھنے کو ماہی بے آب کی طرح مچل رہے تھے ٬ اعلان کا سننا تھا کہ خوشی سے جھوم اٹھے اور پھر ایک قافلہ تیار ہو کر عمرے کی غرض سے مدینہ سے نکلا٬ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو کفارِ مکہ کی جانب سے حُجت قائم کی گئی ٬ ایک معاہدہ کیا گیا ٬ جس کی پہلی شِق یہ تھی کہ مسلمان یہیں سے واپس جائیں گے ٬ مزید کئی قسم کی شرائط تھیں جن کا اطلاق بادی النظر میں مسلمانوں کو پسپا کر رہا تھا٬ لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام شرائط کو قبول کرتے ہوئے واپسی کا ارادہ کر لیا٬ تو اپنے پیاروں کو عرصہ دراز کے بعد دیکھنے کیلیۓ بیتاب صحابہ پہلی بار معترض ہوئے اور حضرت عمر نے تو کئی بار غصےّ سے مٹھیاں بھی بھینچیں لیکن بولنے کی جسارت نہ کر سکے٬
لیکن قدرت کی طرف سے ایسا ہوا کہ کفار خود اپنی قائم کی گیی شرائط کو توڑ بیٹھے اور یوں مسلمان اس معاہدے سے آزاد ہوگئے اور فتح مکہ عمل میں آئی ٬
اس واقعہ سے قائد تحریک آپکو یہ اندازہ ہوگا کہ بعض اوقات مصلحت بہت اعلیٰ اور بلند کامیابی دیتی ہے٬ ہمارا صوبہ ہے ہم ذمہ داران ہیں دوسری مخالف سیاسی جماعتوں کے دھاڑتے ہوئے لب ولہجے کو مدہم کرنے کیلئے اس وقت ہمیں اسی اعتماد اور اسی وقار کے ساتھ اپنی غلطی کوتاہی کو تسلیم کرتے ہوئے والدین سے معافی مانگنے میں تامل نہیں کرنا چاہیۓ٬ حکمت اسی کا نام ہے جو ہمیں صلح حدیبیہ سے ملتی ہے٬ کہ لیڈر بعض اوقات بڑی سوچ کے ساتھ سخت فیصلے کرے تو کامیابی قدرت مقدر کرتی ہے٬ یہ معافی ایک اسلام کو سمجھنے والے اس کو نافذ کروانے والے عظیم رہنما کی طرف سے ہوگی٬ جو اس کے لئے دین میں دنیا میں فلاح کا موجب ہوگی٬ آپ کا قد اس معافی کے بعد گھٹنے کی بجائے مزید بُلند ہوگا٬ سوچئے مت صوبہ بھی ہمارا شہر بھی ہمارے دکھی دردمند والدین بھی ہمارے تو پھر ہچکچاہٹ کیسی آئیے
معافی مانگ کر ان کے زخموں کو مندمل کرنے کا اہتمام کریں ٬ اور دنیا کو بتا دیں کہ ہمارے اصول وہی اپنے لئے ہیں جو ہم دوسروں پر لاگو کرتے ہیں٬ آپ ہم سب کا فخر اعتماد اور امید واحد ہیں پاکستانی سیاست میں٬ حِکمت بھی یہی ہے کہ اس وقت انا کو پاکستان کے استحکام بقا کیلیۓ پرے کر کے عاجزی سے احساس سے سچے دل سے اُن والدین سے معافی مانگ لی جائے٬ معافی کچھ تلافی ہوگی اُس نقصان کی جو بہت بڑا تھا۔
تحریر : شاہ بانو میر