کراچی : صولت مرزا پر الزام ہے کہ اس نے 5 جولائی 1997ء میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایم ڈی کے ای ایس سی شاہد حامد، سیکیورٹی گارڈ خان اکبر اور ڈرائیور اشرف بروہی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
صولت مرزا کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 1999ء میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے سزا کے خلاف اپیلیں مسترد ہوگئیں جس کے بعد صولت مرزا نے فیصلے پر نذر ثانی کے لیے اپیل دائر کی وہ بھی سپریم کورٹ نے مسترد کر دی۔
صدر پاکستان کی طرف سے صولت مرزا کی رحم کی اپیل مسترد ہونے کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 19 مارچ کو صولت مرزا کو پھانسی دینے کا حکم جاری کر دیا لیکن صولت مرزا کے ویڈیو بیان سامنے آنے، متحدہ کے قائد اور دیگر رہنماوں پر سنگین الزامات عاَئد کئے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے یکم اپریل کے لئَے دورباہ ڈیتھ وارنٹ جاری کئے لیکن حکومت نے پھانسی پر عمل درآمد 30 دن کے لئے روک دیا۔ مہلت ختم ہونے کے بعد انسداد دہشتگردی کی عدالت نے صولت مرزا کے بارہ مئی کے لئے تیسری مرتبہ ڈیتھ وارنٹ جاری کئے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ صولت مرزا کو 12 مئی کو صبح ساڑھے چار بجے مچھ جیل میں پھانسی دے دی جائے۔