تحریر: سجاد گل
بوڑھے کسان کی ١٤ سالہ بیٹی کو امیر زمیندار اٹھا کر لے گیا اسکی عزت کو پامال کیا اسکے بعد اسے اپنے چیلوں چمچوں کے حوالے کر دیا ، انھوں نے بھی اپنی وحشت و درندگی کا ہر تیر ١٤ سالہ بنتِ آدم پر برسایا،یوں زمیندار سمیت ١٣ درندوں کی ہوس کا نشانہ بننے والی مظلوم لاچار اور بے بس حوا کی بیٹی ہمارے نظامِ انصاف کے چہرے پر طماچہ رسید کرنے کے بعد دنیا سے کوچ کر گئی،بوڑھا کسان چینختا چلاتا زمیندار کے ڈیرے پر پہنچا اور روتے ہوئے کہا ،تمہیں اسکی سزا ضرور ملے گی ، کیوں کے بہت سے بیوقوفوں کی طرح یہ بیو قوف کسان بھی یہی سمجھتا تھا کے ،پولیس کا اتنا بڑا ادارہ ، عدالتوں کا اتنا وسیع نظام، کالے کوٹ میں ملبوس کالے کرتوتوں والے وکیل ، مسجد نما بنی عدالتیں ، ہائی کورٹ سپریم کورٹ اورانکے ماتھے پر لکھی یہ آیت”فاحکم بین الناس بالحق”شاید اس کسان کو انصاف مہیا کر دیں ، اسی غلط فہمی میں وہ زمیندار کو یہ کہتا ہے کہ تمھیں اسکی سزا ضرور ملے گی،زمیندار نے دانت نکالتے ہوئے قہقہ لگایا اور بولا” آواز دو انصاف کو۔۔
انصاف کہاں ہے” کسان انصاف لینے کے لئے تھانے پہنچ گیا ،موٹی موٹی مونچھوں والے صاحبِ تھانہ سے مخاطب ہو کر اپنی داستانِ غم کہہ ڈالی،تفتیشی افسر نے غصے والے انداز میں کہا جب تمہاری بیٹی کے ساتھ ریپ ہو رہا تھا تو تم نے اسے بچایا کیوں نہیں ،کسان نے جواب دیا حضور میں وہاں موجود نہیں تھا،اس لعنت پڑی شکل والے نے کہا اگر تم وہاں موجود نہیں تھے تو کیسے کہہ سکتے ہوکہ تمھاری بیٹی کے ساتھ ریپ ہوا ہے؟ کسان نے کہا کہ وہ اس وجہ سے فوت ہوئی ہے ، پولیس والے نے جواب دیا کیا تم ڈاکٹر ہو،تم نے اسکا DNAٹیسٹ کر وایا، پولیس والے کے دوچار الٹے سوالات سننے کے بعد کسان بغیر FIR درج کروائے واپس آگیا، اپنے تہی کسان نے بہت کوشش کی کہ اسے انصاف ملے، مگر اسے اس ٹوٹے پھوٹے معاشرے میں سوائے مشوروں کے کچھ نہ مل سکا، کسی نے مشورا دیا کہ ،،بابا جی جو ہونا تھا سو ہو چکا اب کیچڑ میں پتھر مار کر کیا اپنا ہی چہرہ گندا کرنا۔
کسی نے ایمان والے نے یوں کہا کہ سائیں سب اللہ پہ چھوڑ دو اللہ انصاف کرے گا،اور کسی نے توگھٹ تعویذ کا بھی مشورہ دے چھوڑا اور اسی طرح ایک اللہ والے نے دو رکعت نفل اور ایک درگاہ پہ چادر کا مشورہ بھی کسان کی نذر کر دیا،ایک میری طرح کمزور ایک ایمان والے بیوقوف نے ایسا مشورہ بھی دیا کہ ساتھ والے گائوں کا وکیل ریاض بہت غریب نواز بندہ ہے اسکے پاس چلے جائیں وہ ضرور آپ کی مدد کرے گا،بوڑھا کسان انصاف کی تلاش میں وکیل ریاض کے در پر پہنچ گیا،وکیل صاحب قانون کے متقاضیات کو پورا کرتے اس بندائے فقیر کو عدالت تک لے گے،کسان کو امید کی کرن نظر آنے لگی۔آخر کار وہ دن بھی آگیا
جب عدالت میں ایک طرف کسان اور دوسری طرف رمیندار کھڑا تھا ،عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ایسا کوئی ثبوت اور میڈیکل رپورٹ موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کے یہ جرم زمیندار نے کیا ہے ،لہذا زمیندار کو باعزت بری الجرم کر دیا گیا،کسان پر قیامت تو جیسے قیامت ہی ٹوٹ گئی،اور اس نے عدالت میں روتے ہوئے زمیندار کو کہا ”تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں ” (بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی) اور ساتھ یہ بھی کہا تم نے سچ کہا تھا ”آواز دو انصاف کو۔۔انصاف کہاں ہے” کسان کے پاس کھڑے ایک صاحبِ مشورہ نے اسے مشورہ بھری تسلی دیتے ہوئے کہا”ہمت کریں خدا انصاف کرے گا،خدا سب دیکھ رہا ہے، کسان نے چینخ کر کہا،،سب کہتے ہو خدا دیکھ ریا ہے ،ارے خدا دیکھ رہا ہے ،
مگر کیا دیکھ رہا ہے،کیا ظلم اور بے انصافی کا تماشا دیکھ رہا ہے؟ کیا لاچار اور بے بس انسانوں کی مظلومیت کا تماشا دیکھ رہا ہے؟کیا اس بے رحم سماج کی طرح خدا بھی تماشاہی بن گیا ہے؟ قارئین کرام شایدمیری طرح آپ کوبھی یہ جملے کفریہ لگیں،کوئی شک بھی نہیں کہ یہ کفر ہی ہے،،مگر،،انصاف کا فقدان تہذیب کے آداب بھلا دیتا ہے،جب معاشرے سے انصاف ختم ہوجاتا ہے تو اسکا متضاد ظلم جنم لیتا ہے جب ظلم جنم لیتا ہے تو معاشرے میں سوائے سوء وبرائی کے کچھ باقی نہیں رہتا ،ایمان توحید سے بنتا ہے اور توحید کا عقیدہ شرک سے کھوکھلا ہوتا ہے، اور اللہ قرآن میں شرک کو ظلم کہتا ہے
، جب انصاف کی فراہمی کا فقدان آسمان کی بلندیوں سے باتیں کر رہا ہوتو ایسے میں منہ سے کفر کا نکلنا ذیادہ اچھنبے کی بات نہیں، حالیہ دنوں میں بھی لاہور میں ایک ١٥ سالہ لڑکی کو ماڈلینگ کاجھانسہ دیکر ہوٹل لے جا کرشراب پلا کر مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا،ان میں سے ٥ کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر چھٹے کو تاحال گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ اسکے سر پر صاحبانِ اقتدار کا سایہِ شفقت ہے، بالفرض وہ درندہ صفت آدمی پکڑا بھی جائے تو کیا اس آدم وحوا کی بیٹی کو انصاف مل سکے گا؟ یا وہ بھی عدالتوں کے بیسیوں طواف کرنے کے بعد یہ کہنے پر مجبور ہو جائے گی”توبھی پاکستان ہے۔میں بھی پاکستان ہوں” لوگ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے ۔ میں کہتی ہوں کیا دیکھ رہا ہے؟اور آواز دو انصاف کو۔انصاف کہاں ہے۔
تحریر: سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009