تحریر : احمد نثار
پچھلے دس تا پندرہ سالوں میں میں نے کئی مذہبی گروہ کے احباب سے ملاقات کی اور ان سے گفت و شنید بھی۔ جن میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھ اور یہودی طبقے کے افراد تھے۔ اسلامک سٹڈیز ، قومی یکجہتی اور مذہبی رواداری جیسے موضوعات پر مذکرات بھی کیے۔ خاص طور پر حکومتی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین سے ملاقاتیں کی اور مزاکرات بھی۔ اس گفت و شنید اور مذاکرات کے دوران کئی سوال و جواب ہوئے۔ انہیں کی بنیاد پر یہاں ایک مختصر سی تحریر پیش ہے۔ اس تحریر میں اس گوشہ پر روشنی ڈالی گئی، جس میں اکثر احباب مسلم طبقے سے شکایات کرتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ مسلم طبقات کے بھی کئی افراد سے مذاکرات کیا۔ جس میں مسلم طبقے کے اکثر احباب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان مذاکرات کے معرقہ کو اس تحریر میں پیش کرنے کی ایک سادہ کوشش کی گئی ہے۔
عالمی سطح پر : مسلمان آج کن کن آوازوں کا شکار ہے؟ کیا یہ آوازیں اپنی جگہ کوئی ٹھوس وجہ ، ثبوط اور درست و نمایاں حقیقت رکھتی ہیں؟
) کیا مسلمان ذہنی فطور میں اسیر ہے؟ یہ فطور ہیں کیا؟ یہ فطور کے وجوہات کیا ہیں؟
) کیا مسلمان سماجی اعتبار سے بدلنا ضروری ہے؟ اگر ہاں تو کن شعبوں میں؟
) آخر مسلمان کی شکایتیں دنیا والوں سے کیا ہیں؟
) دنیا والوں کی شکایتیں مسلمانوں سے کیا ہیں؟
) کیوں مسلمان دنیا میں اور دیگر قوموں سے سمٹ نہیں پا رہاہے؟
) آخر وہ کیا وجہ یا وجوہات ہیں جو دیگر اقوم مسلمان کو اپنا پڑوسی اور سماجی بھائی تسلیم کرنے سے گریز کررہی ہیں؟
بالی باتوں کی طرف سنجیدہ زاویہ نظر سے متوجہ ہوکر اگر تجزیہ کیا جائے تو کیا نکات بطور نتیجہ نکلتے ہیں! کیا مسلمان داخلی جانچ Interospection کرنے کے لیے تیار ہے؟
٭٭ آئیے دیکھیں کہ اس گفتگو کا عنوان کیا ہے۔
) مسلمانوں کے خلاف کیا کیا آوازیں اُٹھ رہی ہیں؟
) دورِ حاظر کے کسی بھی خبرنامہ کو پلٹا کر دیکھو ، ایک ہی بات بار بار نظروں سے گذرتی ہے،
) مسلم دہشت گردی! اسلامک دہشت گردی! اسلامک ٹررزم!مسلمان دہشت گرد ہیں! مسلمانوں نے بم دھماکے کئے!فلاں دہشت گرد حادثے کے پیچھے فلاں مسلم تنظیم کا ہاتھ! فلاں عبادت گاہ پر حملہ اور اس کے پیچھے مسلم تنظیم کا ہاتھ! مسلمان قوم سے دیگر اقوام خوف زدہ! دیگر لوگ مسلمانوں کی طرف نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے!
) ایک اور دیگر تنظیم پوسٹر اور بینر لکھوائی کہ مسلمانو تم دہشت گرد ہو، فلاں حادثے میں تم نے معصوموں کی جان لی ہے، تمہیں ہمارے ملک میں رہنے کا حق نہیں ہے، ہمارا ملک چھوڑو!
) داڑھی والوں کو دیکھ کر ریل میں لوگوں نے پیٹنا شروع کیا اور چِلّا رہے تھے کہ تمہیں نے بم دھماکے کیے ہیں!
) کیا مسلمان دوسری قوموں کے ساتھ مل جھل کے رہنا پسند نہیں کرتا؟
) انسان دوستی کی تدریس دینے والا مسلمان آج کیوں دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی کھو بیٹھا ہے؟
) اسلام جب کہ امن و امان کا مذہب ہے، دوسرے مذاہب بھی یہی تعلیم دیتے آئے ہیں، کیوں مسلمان امن و امان کا علم بردارہونے کے باوجود عالمِ انسانیت کے ساتھ شانہ بشانہ چل نہیں پا رہا؟ تو اس کے اسباب کیا ہیں؟
) مسلمان جھٹ خفا ہوتا چلا جارہاہے، سوچنے سے پہلے عمل کرتا چلا جارہا ہے، گفتار ایسا کہ آگے کی سننے کو تیار نہیں!
) دوسروں میں عیب تلاش تو کرتا ہے مگر خود کے عیب پر نظر نہیں کرتا!
) جلد بھڑک جاتا ہے اور جلد بھٹک بھی جاتا ہے!
) اس جلد بھڑک جانے کی صفت کے بناء پر دیگر لوگ جو اسے شکار بنانا چاہتے ہیں فوری طور پر غالب آجاتے ہیں، اور انگلی اٹھا نے دیر نہیں کرتے۔ اس سے پہلے کہ مسلمان سنبھلے اور سوچنے لگے تب تک وہ اپنی روٹی سیک لیتے ہیں، اور اسے ذلالت کا شکار بناتے ہیں اور ایسی صورت حال پر فطری طور پر مسلمان منتشر ہوجاتا ہے۔
٭٭ جہاں بات بھارت کے مسلمانوں کی ہے اس سے شکایت یہ ہے کہ
١۔ یہ پاکی صفائی کا اہتمام نہیں کرتا، مسلم طبقہ جہاں بستا ہے وہاں گندگی سلطنت کرتی ہے۔
٢۔ یہ علم کی طرف توجہ نہیں کرتا، بے علمی کے باعث وہ خود پیچھے رہ جاتا ہے اور ملک کو بھی آگے بڑھنے نہیں دیتا۔
٣۔ محنت کش نہیں ہے، کاہلانہ زندگی اختیار کرتاہے۔
٤۔ سماجی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے تیا ر نہیں رہتا۔
٥۔ ملک کے تعمیری کاموں میں اپنا کردار ادا نہیں کرتا اور نہ ہی چاہتا ہے۔
٦۔ غیر قانونی دھندوں میں مشتمل رہتا ہے، اور کالا بازاری کو سرگرم کرنے میں خود کو مصروف رکھتا ہے۔ سرکاری نظریوں سے بے بحرہ اور قانونی علم سے محروم، خود کو غیر قانونی افعال کی گرفت میں آجاتا ہے۔ خود کو اور اپنے خاندان کو اس چنگل میں ڈھکیل دیتا ہے۔
٧۔ بھارت میں رہنے کے باوجود بھارت کو نہ اپنا ملک تصور کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی تسلیم کرنے کو تیار۔
٨۔ پڑوسی ممالک سے والحانہ محبت رکھتا ہے۔
٩۔ کھیلوں میں بھارت کی جیت سے خوش نہیں ہوتا۔
١٠۔ جب بھارت سے پڑوسی ملک جیت جاتا ہے تو پھولے نہیں سماتا۔
١١۔ آبادی پر پابندی نہیں لگاتا۔
١٢۔ سماجی ذمہ داریوں سے تو دور بھاگتا ہے مگر جب اقتدار کی بات آتی ہے تو اپنا حق مانگنے سب سے آگے رہتا ہے۔
١٣۔ مینارٹی اسٹیٹس کی مانگ زوروں پر کرتا ہے، جب مینارٹی اسٹیٹس مل جاتا ہے تواس سے انصاف نہیں کر پاتا۔
١٤۔ مذہبی رواداری سنجیدگی سے نہیں کرتا۔
١٥۔ دیگر مذاہب کی قدردانی نہیں کرتا۔
١٦۔ مدارس کے نام پردیگر مذاہب کے خلاف بھڑکائو کے پروگرام چلاتا ہے۔
١٧۔ تجارت ہی کی طرف مرکوز رہنا چاہتا ہے، کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے سے گریز کرتا ہے۔
١٨۔ مسلمان چند شخصیتوں پر ناز کرتا ہے اور claimکرتا ہے کہ یہ اسی کی دین ہے مثلاً شہید کپتان حمید، شہید ٹیپو، مولانا آزاد، ڈاکٹر سالم علی، ڈاکٹر عبدالکلام، کرکٹ کپتان اظہرالدین، ٹینس کھلاڑی سانیہ مرزا وغیرہ۔ جب کہ دیکھا جائے تو سچ یہ ہے کہ ان شخصیتوں کے کیریر بنانے میں مسلم سماج کا کوئی رول نہیں ہے۔ ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جو کہ مسلم سماج کی اشتراکی دین ہو۔ مسلمان سبھی مل کر کسی شخصیت کو اُبھار نے کی مثال نہیں ملتی جو اتفاقاً ہوجاتا ہے یا محنت سے اگر کوئی آگے آتا ہے تو اس کا Credit
claim کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔یہ سب سے بڑی کمزوری ہے۔
١٩۔ مسلمانوں کے مسائل کو اسلامی مسائل تصور کرنا کہاں تک درست ہے؟
( جموں کشمیر کا جو مسئلہ ہے وہ علاقائی مسئلہ ہے، جب کہ اُس علاقے میں مسلمان ہیں ، تو اس مسئلہ کو اسلام کا مسئلہ تصور کرنا کہاں تک درست ہوگا؟
( عراق کا افغانستان ،بوسنیا اور چچنیا کا بھی جو مسئلہ ہے وہ Geographical & Socialمسئلہ ہے ، اس کو اسلامی مسئلہ کا Label دے کر اسلام کو سیاست میں گھسیٹنا اور بدنام کرنا کہاں تک درست ہوگا؟
( نیپال میں مائواسٹ کا مسئلہ سری لنکا میں یل ٹی ٹی ای کا مسئلہ آئرلینڈ میں آئرش رپبلکن آرمی کا مسئلہ ، یہ مسئلے جغرافیائی ، سماجی اور نسلی مسئلے ہیں، ان کو کوئی مذہبی رنگ نہیں دیا گیا اور نہ ہی دیا جاسکتا ہے۔
( لیکن وہ علاقے جہاں مسلمان بستے ہیں اُن کے جغرافیائی سماجی مسئلوں کو اسلامی مسئلہ کا رنگ دے کرشطرنج کھیلنے والے اپنے مشن میں کامیاب رہے ہیں۔
( اور جہاں میڈیا کی بات آتی ہے تو میڈیا بھی ان مسائل کو سماجی و جغرافیائی مسئلہ سمجھنے میں ناکام رہی۔ اور ان علاقوں کے مسلمان بھی اس مسئلہ کو سماجی اور جغرافیائی مسئلہ قرار دینے میں ناکام رہے۔ اگر یوں کہا جائے تو درست ہوگا کہ اُس طرف اُن کی سوچ ہی نہیں گئی۔
( اور دنیا بھر کے دیگر مسلمان ان حادثات سے پریشان و پشیمان، اور یہ ثابت کرنے میں مصروف کہ اسلام دہشت گرد مذہب نہیںہے یعنی بالواسطہ طور پر یہ معصوم کوشش سے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ یہ مسئلہ اسلامی ہے نہ کہ سماجی۔
( مساجد میں، مدارس میں عیدوں کے موقعوں پر جب دعا کی جاتی ہے تو، تو اجتمائی دعا کرنے والے حضرات صرف مسلمانوں کے لیے دعا کرتے ہیں نہ کہ سارے عالم کے لیے۔ دیگر مذاہب کے حق میں دعا کرنا عیب سمجھا جارہا ہے اور غیر اسلامی بھی۔ جب کہ صداقت یہ ہے کہ اسلام عالمی مذہب ہے، اللہ رب العالمین تو محمدۖ رحمت العالمین۔
٭٭مسلمانوں کی شکایتیں دنیا والوں سے؛
ایک یہ عجیب و غریب موضوع ہے، جس میں دنیا کا مسلم طبقہ جسے عالمِ اسلام بھی کہا جاتا ہے، ذیل کی شکایات ہمیشہ اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔
٭عالمی سطح:
دنیا میں، ایک عالمی شہری ہونے کے ناطے اس کو اپنا حق نہیں مل رہا ہے۔ مغرب ہمیشہ اسے پسپہ کرنے کی سازشوں میں لگا ہوا ہے۔ اس کے مضبوط ممالک کو مغرب اور سہیونی طاقتیں، ایک منصوبے کے تحت، رفتہ رفتہ کمزور کررہے ہیں۔ اور کئی موقعوں پر جنگوں کے ذریعے تباہ و تاراج کررہے ہیں۔ فلسطین، عراق، ایران، سیریا (شام)، مصر (ایجپٹ)، لبیا، افغانستان، یمن، پاکستان، کشمیر، میانمار (برما) ان ممالک اور علاقہ جات میں ؛ جان بوجھ کر مغربی اور سہیونی طاقتیں مسلم ممالک اور علاقہ جات کو اور عوام کو تباہ و برباد کررہے ہیں۔ مغرب ہمیشہ مسلم ممالک میں مداخلت کرتا ہے اور جنگوں کی آگ میں ڈھکیل دیتا ہے۔ مغرب ہمیشہ مسلم ممالک کو ہتھیار فروخت کرکے اپنی تجوریاں بھرتاہے۔
٭ ملکی سطح:
بھارت کا مسلمان بھی ہمیشہ یہ شکایات پیش کرتا آرہاہے کہ اس کو ہمیشہ دوسرے نمبر کے شہری طرح دیکھا جاتا ہے۔ چوں کہ اس کی آبادی ملک کی آبادی کا 15% ہے، مگر اس کو ہمیشہ نظر انداز کرتے چلے آرہے ہیں، خواہ وہ مرکزی حکومت ہو کہ صوبائی حکومتیں۔ آبادی کے لحاظ سے اس طبقے کو ریزرویشن نہیں مل رہا ہے۔ سرکاری ملازمتیں اس کے حق سے دور کیے جارہے ہیں۔ سیول سرویسیز میں اس طبقہ کی نمائندگی 3% سے بھی کم ہے۔ ملک کی فوج میں بھرتی میں اس طبقے سے امتیاز برتا جارہا ہے۔ پولس سرویسیز میں بھی، خواہ وہ کسی صوبہ کی کیوں نہ ہو، اس طبقے کو محروم کیا جارہا ہے اور اس کے پیچھے ہندوتوا کی طاقتیں ہیں۔ معصوم مسلم نوجوانوں کو حراست میں لینا اور ان پر دہشت گردی کا الزام لگانا مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا اور بی الخصوص محکمہ داخلی امور یا ہوم ڈیپارٹمینٹ کا فیشن بن گیا ہے۔
مرکزی خفیہ ادارے RAW اور IB دونوں اپنے اپنے کام سرانجام دینے میں ناکام ہیں۔ جب کہیں دہشت گردی کے حادثے پیش آتے ہیں، تو یہ ادارے صرف ایک ہی نکتئہ نظر سے کیس کو ڈیل کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ مسلم نوجوانوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ اور جب تک شری کرکرے جیسے سچے افسر، ان کیسیس کو کریک کرکے غیر مسلم تنظیموں کے کردار کا پردہ فاش نہیں کیا تب تک یہ ادارے ایک ہی زاویہ پر کام کر رہے تھے جو کہ خفیہ اداروں کے لیے اندھے پن کے برابر ہے۔
ایک اور مثال، ایک نوجوان مسلم سائنسدان جو، ڈی۔آر۔ڈی۔او۔ (ڈیفینس ریسرچ اینڈ ڈیولپمینٹ آرگنائزیشن میں بحیثیت جونیر سائنٹسٹ کام کر رہا تھا۔ اس پر یہ الزام لگادیا گیا کہ یہ مسلم دہشت گرد تنظیموں سے ملا ہوا ہے، گرفتار کر جیل میںرکھا گیا۔ ین۔آئی۔اے۔ نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی نے اس کیس کی تفتیش کی اور صوبائی (کرناٹک) پولس کا یہ دعوی خارج کردیا گیا ، اور یہ اعلان کیا گیا کہ مسلم جونیر سائنٹسٹ بے گناہ ہے۔ مگر الزام لگانے والی پولس (اُس وقت کرناٹک میں بی جے پی سرکار تھی) کے خلاف کچھ کارروائی نہیں کی گئی جو کہ ناانصافی کا ایک پہلو ہے۔
٭٭٭ ہم کو کیا کرنی چاہئے؟
ہمیں اپنے آپ کو اس طرح پیش آنا چاہئے کہ دیگر مذاہب والے یہ کہیں کہ اسلام دہشت اور تشدد کا مذہب نہیں ہے۔
٭ سبھی مذاہب والوں سے بھائی چارگی سے پیش آئیں۔
٭ سبھی لوگوں سے رواداری سے پیش آئیں۔
٭ امانت داری سے کام کریں۔ ویسے مسلمان امانت داری ہی سے کام کرتا ہے۔ دھوکہ زنی اس کا شیوہ نہیں۔ مزید تلقین ہے کہ اس کی امانت داری کا مظاہر مزید ہو ، جس سے اللہ بھی خوش اور خلق اللہ بھی خوش ہوئے۔
٭ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
٭ سود جب کہ اسلام سخت حرام قرار دیا ہے،اسے بڑے شوق سے اپنا یا ہے۔ سود کئی جہالتوں اور کئی برائیوں کی ماں یا باپ یا دونوں ہے ،جہاں انسانیت فوت ہوتی ہے وہاں سود جنم لیتا ہے، سود سے مروت مرجاتی ہے، خداترسی اور انسانیت کے بالیٰ جذبات مر جاتے ہیں ، ایسی بری چیز کو اپناکر ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔اس برائی کو چھوڑیں۔
٭ زکواة ، جب کہ اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں سے ہے، اس کو ٹھیک ادانہیں کرتا۔ کہتا ہے کہ میں اس لائق نہیں ہوں کہ زکواة دوں۔ اللہ پاک حکم فرماتے ہیں کہ زکواة دو، مطلب یہ کہ کمائو اور اس لائق بنو اور زکواة ادا کرو۔ اس بات پر مسلمان توجہ ہی نہیں کرتا۔ اس بات کی طرف توجہ کریں اور اس لائق بنیں کہ حلال کمائی کریں اور زکواة ادا کریں۔
٭ کئی ایک ین جی او قائم کریں ، جو سماج کام کارانجام دیں۔
٭ اپنے علاقوں کو پاک اور صاف رکھیں۔
٭ تعلیم کی طرف متوجہ ہوں۔ اپنے بچوں کو تعلیم میں ڈالیں۔ اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ خاص طور پر پروفیشنل ڈگریز کی طرف متوجہ ہوں۔
٭ روزگاری میں مصروف ہوجائیں، وہ بھی حلال۔
٭ گالی گلوچ چھوڑیں، جو کہ ایک لعنت ہے۔
٭ اچھے شہری بننے کی کوشش کریں۔
٭ ملک کے اور عالمِ انسانیت کے فلاح و بہبودکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
٭ بہت سارے ین جی او، سماج سدھار کے کام انجام دے رہے ہیں، ان میں رکنیت لیں اورسبھی کے ساتھ شانہ بشانہ چلیں۔
٭ انڈین ریڈ کراس سوسائٹی، روٹری کلب جیسے عام سماجی خدمت گار اداروں میں رکنیت لیں ۔
٭ ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کے کئی کام مسلمان سر انجام دے سکتا ہے، ان شعبوں سے رابطہ رکھیں اوراپنے آپ کوخدمت گذار بنائیں۔
٭ شعبئہ تعلیم سے جڑے کئی پروگرام ہیں جنھیں انجام دے کر مسلم طبقہ ہی کو نہیں بلکہ ملک کی ترقی کے لئے بھی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
٭ حکومت کے پاس اربوں ایکڑ زمین یوں ہی بے کار پڑی ہوئی ہے، حکومت سے زمین کا مطالبہ کرکے کاشتکاری میں لگے رہیں، اس سے بہتر کہ شہروں میں آوارہ گردوںکی طرح زندگی گذاریں، کھیتوں کھلیانوں میں کام کریں، باوقار زندگی گذاریں، بدنامیوں سے بچیں، ملت و ملک و عالمِ انسانیت کے لئے کام آئیں۔
٭ ایک اہم مطالعہ بحوالہ یہاں پر پیش کرنا اہم سمجھتا ہوں۔ مثال کے طور پر ریاست مہاراشٹر اور آندھرا پردیش کو لیں گے۔ ان ریاستوں میں کئی ادارے ہیں جو مائنوریٹی سٹیٹس لے کر تعلیمی ادارے قائم کر بحسن خوبی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ دیکھیں کے ان ریاستوں میں کتنے ادارے مائنورٹی سٹیٹس لے چکے ہیںاور ان میں مسلم ادارے کتنے ہیں۔ ان ریاستوں میں مائنوریٹی اقوام جن میں مسلم، عیسائی، سکھ، جین، پارسی اور بدھ مت ہیں ان سب کا جملہ فیصد ١٩ اور ١٢ فیصد ہے اور مسلم مائنورٹی آبادی کا فی صد بالترتیب ١٥ اور ٩ ہے۔ لیکن مائنوریٹی سٹیٹس منظور شدہ اداروں کو دیکھیں تو حیرت ہوگی۔ مائنوریٹیز کے فیصد میں مسلم مائنوریٹی فیصد ٦٣ اور ٧٥ فیصدبالترتیب ہیں۔ لیکن مائنوریٹی سٹیٹس ادارے صرف ١٠ تا ٢٠ فیصد ہی پائے جائیں گے۔ جو کہ حیرت انگیز اور تشویش ناک نمبر ہیں۔ مہاراشٹر میں، مذہبی، لسانی بنیاد پر مائنوریٹی درجہ حاصل شدہ ادارے ہیں، جیسے، گجراتی، تیلگو، انگریزی، کنڑ اور دیگر لسانی مائنوریٹی (لنگوسٹک مائنوریٹیز) طبقے ہیں، جو مائنوریٹی سٹیٹس لے کر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم اور اردو یہ دونوں زمرہ جات میں مائنوریٹی سٹیٹس منظور شدہ اداروں کا فی صد نہایت افسوسناک ہے۔ اس کی طرف توجہ دیں اور مسلم مائنوریٹی اور اردو لنگوسٹک مائنوریٹی ادارے قائم کرکے اپنے خدمات انجام دیں۔ ان زمروں کے اندر، میڈیکل، انجنیرنگ اور دیگر کالیجس قائم کیے جاسکتے ہیں، جس کی طرف توجہ کرنا مسلم اداروں کا کام ہے۔
٭٭ مسلم لیڈران کو کیا کرنی چاہئے؟
٭ مسلم قوم میں شعور بیدار کریں ، پاکی و صفائی کا اہتمام کیسے کیا جاتا ہے عملی طور پر راستہ بتائیں۔
٭ تعلیم کی طرف توجہ دلائیں۔ حکومتی اسکیموں سے آگاہ کروائیں۔تعلیمی ادارے کیسے قائم کئے جاتے ہیں۔ حکومت کے تعلیمی نظام سے آگاہ کروائیں۔ اس کے لیے کئی عام سیمینار ز کا انعقاد کریں۔ خالص عوام النساس کے لیے ہوں۔ لیڈرشپ ڈیولپمنٹ کورسیز چلائیں۔
٭ نوکریاں اور جائدادیں کیسے حاصل کی جاسکتی ہیں آگاہ کروائیں۔
٭ اسکولوں کالجوں میں داخلے اور ان کے داخلے کے امتحانات کیسے دئے جاتے ہیں، اس کا شعور بیدار کریں۔
٭ سِوِل سرویسزCivil Servicesاور ، Defence Servicesکے امتحانات اور Employmentکا شعور بیدار کریں۔
٭ سیکیولرزم کے لوازمات اور نظام اور اس کے فوائد سے آگاہ کروائیں۔
٭ قومی یکجہتی National Integrationکی تعلیم کوٹ کوٹ کر بھریں۔
٭ مذہبی زندگی اور مشترکہ سماجی زندگی میں فرق بتاتے ہوئے، مشترکہ سماجی زندگی میںمشترکہ مذہبی طرزِ زندگی کے عوامل کو بتائیں جو کہ سیکیولرزمSecularismکی بنیاد ہے۔
٭ تمام مذاہب اشتراکی طور پر کن تعلیمات کی طرف زیادہ زور دئے ہیں، ان کو منظرِ عام پر لائیں، اور ایک ایسا نظام پیدا کریں جہاں ہندو مسلم سماجی اشتراکیت پیدا ہوسکے، اورمقصدِ حیات کو سمجھتے ہوئے مل جھل کر زندگی بسر کرسکیں۔
٭٭ مذہبی اداروں کے کیا کام ہونی چاہئے!
( مذہبی ادارے جو کہ اکثر مدارس و مکاتب کے روپ میں درخشاں ہیں، انھیں ذیل کے لوازمات کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔
( اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے مدارس اپنے طلباء کو اچھے مسلمان بنانے کی کوشش میں گامزن ہیں اور اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہیں۔ جہاں سماج میں خواہ وہ مسلم سماج یا ہندو مسلم مشترکہ سماج، اپنی زندگی گذارنے کی بات آتی ہے تو دیکھیں کہ ان مدارس سے فارغ طلبہ کہاں تک ان سماجوں میں بر سرِ روزگارکامیاب زندگی گذار رہے ہیں۔ ( کیا ہمارے مدارس سے فارغ طلباء اچھے شہری بن کر اپنی زندگی گذار رہے ہیں؟ ( سارے ہندوستان میں کتنے مدارس ہیں؟ان میں کون سے کورسیز دستیاب ہیں؟ حافظ،قاری،مولوی،عالم، فاضل، مفتی وغیرہ ان تمام کورسوں میں کتنے طلباء سالانہ فارغ ہوکر نکلتے ہیں کیا ان تمام کو سماج میں روزگار دستیاب ہے؟اگر ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ اگر نہیں تو کیوں؟کیا یہ بات سچ نہیں کہ حافظ، قاری، مولوی ، عالم، فاضل مفتی وغیرہ حضرات کو روزگار دستیاب اگر ہے تو کن شعبوں میں؟مدارس میں،مساجد میںاور مکاتب میں۔ کیا ہندوستان میں اتنے مدارس ،مساجد اور مکاتب ہیں کہ ان فارغ التعلیم حضرات کو روزگار مل سکے؟ کیا ہمارے مدارس میں کوئی تکنیکی تعلیم ملتی ہے؟
( کیا کوئی ایسی تعلیم ملتی ہے جس سے حکومتی اداروں میں نوکری مل سکے؟
( کیا کوئی ایسی تعلیم ملتی ہے جس سے خانگی اداروں میں نوکری مل سکے؟
( کیا کوئی ایسی تعلیم ملتی ہے جس سے خود یہ حضرات انفرادی طور پر اپنا کوئی کاروبار،کارخانہ،تجارت یا سرویس شروع کرسکیں؟
( اگر جواب نہیںتو اس بات پر غور کریں کہ مدارس میں کون سے شعبوں کی شمولیت درکار ہے؟ اور کتنے مدارس اور درکار ہیں؟
( یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ بے روزگار یا روزگار ملا مولوی ، تعویذ گنڈے پلیتے کے کام میں تو ملوث نہیں ہیں؟ روحانی علاج کے نام .پر کہیں معصوم مسلمانوں کے ایمان سے تو نہیں کھیل رہے ہیں۔
( اس بات پر بھی غور کریں کہ ہمارے مدارس کو حکومتِ ہند کی جانب سے کوئی مالی امداد مل سکتی ہے کہ ہم اپنے مدارس میں ان تمام تکنیکی شعبوں کی شمولیت کرسکیں۔
( کیا مدرسہ بورڈ قائم کرنا ہمارے حق میں نہ ہوگا؟
( اگر مدرسہ بورڈ قائم ہوگا تو یہ خیال رکھیں کہ اس بورڈ کے اراکین اپنے ہی علماء ہیں یا ہوں گے۔ اور جو بھی نصاب بنایا جائے گا
انھیں کے مشوروں پر بنایا جائے گا۔ اداروں پر نگرانی کے فرائض سے لے کر امتحات واسنادکی سرپرستی بھی یہی انجام دیں گے۔
( مدارس کو حکومت کی جانب سے گرانٹ ملنی چاہئے۔
ایک اور اہم مسئلہ مسلم برادری کے آگے درپیش ہے، وہ یہ کہ اگلے دور میں عالمی سطح پر خلیفہ نظام ہواکرتا تھا۔ جس سے سارے عالم کے مسلمانوں کو ایک رہنمائی ملتی تھی۔ بی الخصوص مذہبی معاملات میں فتاویٰ کے معاملات میں۔لیکن آج وہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پرمسلمان کو رہبری اور رہنمائی نہیں مل رہی ہے ۔جس کی وجہ سے فتاویٰ کے لیے دیگر علماء سے رجوع ہونا پڑتا ہے، یہ بھی ایک اچھی ہی بات ہے لیکن عالمی سطح پر رہنمائی ہونا اور مسائل کا حل ہوناتمام عالمِ اسلام کے حق میں بھلا ہوگا۔ آئیے دیکھیں کہ عالمِ اسلام کا ایک خلیفہ نہ ہونے کی وجہ سے کیا مشکلات در پیش ہیں۔
٭ تمام عالم میں یکساں فتویٰ کی اعلانی اور عمل آوری نہیں ہو پارہی ہے۔
٭ اس معاملہ میں اسلمامی معاشرہ ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے۔ ہر گروہ، ہر مکتب کے نکتئہ نظر سے الگ الگ فتوے نکلتے ہیں، اس طرح کے فتوے اسلامی معاشرے کو مستحکم کرنے کے بجاے منتشر کررہے ہیں جو ایک المیہ ہے۔ آج کل کے مکتبئہ فکر والوں کو یا پھر مفتیوں کو فتوے دینا بھی نہیں آتا، ایسا لگتا ہے جو بھی جوازی فتویٰ پیش کرتے ہیں، مبہم متذبذب اور گنجلک ہے، اور آخر میں وللہ عالم باالثواب کہہ کر ختم کردیتے ہیں۔ مسئلہ پوچھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ مسئلہ کا حل پوچھ کر غیرواضع فتووں سے اس کا مسئلہ دگنا
ہوگیا۔ مفتی صاحبان کو یہاں تک کہنا پڑتا ہے کہ فتویٰ صرف ایک رائے ہے نہ کہ قانون۔ یوں کہہ کر مفتیان حضرات خود کو بچنے بچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
٭ مسلمانوں کی عالمی نمائندگی ختم ہوگئی۔
٭ ایک ہی مسئلہ کے حل کے لیے، مختلف ممالک کے مختلف مدارس و مکتبئہ فکر والوں میں مختلف طرزِ عمل پیش ہورہے ہیں۔
٭ اسلام یکسوئی کی تعلیم دیتا ہے اسکے باوجود یکسوئی سے مسلمان محروم ہوتا چلاجارہاہے۔
٭ عالمِ اسلام میں مختلف گروہ مختلف پروگرام لے کے چل رہے ہیں۔ جس سے عام مسلمان بکھرا بکھرا ہے۔ اس کی ذمہ داری نام نہاد اداروں کی ہے جو اپنے آپ کو مذہبی پیشوا سمجھتے ہیں اور یہ ثابت کر نے کی کوشش کرتے ہیں کہ جنت کی کنجی ان کے مدرسے میں ہی ہے اور دیگر مدارس میں جو کنجیاں ہیں ان سے صرف جہنم کا دروازہ کھل سکتا ہے نہ کہ جنت کا۔
٭ دنیا والوں کو ایسا لگتا ہے کہ اسلام بے لگام مذہب ہے۔
٭ ایسے لگتا ہے جیسے مسلم طبقہ سماجی رہنمائی سے محروم ہوگیا ہے۔
٭ مختلف اسلامی ممالک میںجتنے بھی سماجی پس منظر میں گہما گہمیاں ، فسادات وارد ہوتے ہیں انھیں اسلامی مسائل قرار دے کر اسلام کو دہشت گرد کا کا لیبل لگانے میں کامیاب چند بین الاقوامی تنظیمیں یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں، یہی تو ان کا بنیادی مقصد ہے! جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں،وہی کام ہمارے علماء اور مکاتب فکر کے حضرات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے کانسپائرسی نظریات والے ادارے اندر اندر ہی خوش ہیں کہ چلو ان کا کام یہ مکاتب فکر اور علماء ہی انجام دے رہے ہیں، اور مزید دیگر منصوبوں سے مسلم طبقوں میں گمراہ کرنے لگے ہیں۔ جسے مسلمان نہ جانتا ہے نہ سمجھتا ہے اور نہ ہی کُلی طور پر تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہے۔بس جزوی طور پر جو اپنی سمجھ میںجو آگیا اسی کو حقیقت جان کر بے لگام زندگی بسر کرلیتا ہے۔ ٹھوس طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا اور زمانے کو آگاہ بھی کرنا ہوگا کہ سماجی مسائل کبھی بھی مذہبی مسائل نہیں بن سکتے۔ مثال کے طور پر اگر کسی مسلمان کو نوکری نہیں ملتی تو اس میں اسلام کا کیا دوش ہے؟ سماجی مسائل کواسلامی قرار دینا محض جہالت کے سوا اور کچھ نہیں۔
٭ مثال کے طور پر فلسطین کا مسلہ کھڑا کرنے والے مغربی ادارے ہیں۔ اور یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ لیکن اس علاقائی مسئلہ کو بین الاقوامی مسئلہ کا رنگ دے کر، اس کو اسلامی مسئلہ قرار دینے اور ثابت کرنے میں ہر ادارہ لگا ہوا ہے۔ خاص طور پر مسلم طبقہ۔ اس مسئلہ کو مسلم مسئلہ سمجھیں تو درست ہے نہ اسلامی مسئلہ۔ مسلم ادارے اس کو اسلامی مسئلہ سمجھتے ہیں، ٹھیک یہی چاہیے مغربی اداروں کو۔
اسی بنیاد پر تصادم پیداکیا جاسکتا ہے۔ باغی گروہ تیار کیے جسکتے ہیں۔ ان کے جذبات کو بھڑکاکر انہیں ہتھیار ہاتھ میں لینے کو یا تو ورغلایا جاتا ہے یا پھر مجبور۔ ٹھیک یہی حالات ہتھیار فروشوں کے کاروبار چلاسکتے ہیں۔پرانے ہتھیار جو گوداموں میں سڑے پڑے ہیں، انہیں استعمال کرنے کا صحیح موقع کی تخلیق میں مغربی ادارے کامیاب ہیں۔ مسلم طبقے اور گروہ اپنی نااتفاقی اور کم ظرفی اور جہالت کی وجہ سے ان کی چنگل میں آسانی سے آجاتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں جتنی بھی جنگیں ہوئیں، ان تمام جنگوں میں جو ہتھیار استعمال ہوئے اور کیے جارہے ہیں یہ تمام کہاں سے وارد ہوئے؟ انہیں کون فراہم کرتا ہے یا بیچتا ہے؟ ناٹو تو ہے ہی اسلح فروشی کے لیے۔ مسلم گروہوں کو بیچا جاتا ہے۔ مزید زیادتی یہ کہ جو مسلم طبقے آپس میں لڑ رہے ہیں، دونوں گروہوں کو مغرب ہی ہتھیار سپلائی کرتا ہے۔ دونوں گروہ پیسا لٹاتے ہیں، اور مارتے بھی ہیں تو خود اپنے بھائیوں کو۔ منڈیا گرم مغرب کی ہوتی ہیں۔ ہنڈیا مغرب کے اسلح فروشوں کی بھرتی ہیں۔ تباہ و تاراج مسلم گروہ ہوتے ہیں۔ جس کی کوئی فکر کرنے والا مسلم یا اسلامی ادارہ نہیں ہے۔ ایک دو ادارے ہیں، آرگانائزیشن آف اسلامک کانفیرینس، عرب لیگ و دیگر۔ مگر افسوس یہ ادارے تحتانوی جماعتوں کے طلباء کی طرح ہیں، جو استاد بولے گا اسی کی سنتے ہیں۔ اور ان کے اساتذہ مغربی ادارے اور اقوامِ متحدہ کے نام نہاد ادارے، جن کی سرپرستی پھر سے مغرب کی تجارتی منڈیاں اور اصلح فروشوں کے اشاروں ناچنے والے ہیں۔
٭ اگر کہیں کسی مسلمان یا پھر مسلم گروہ کو سماجی طور پر خطرہ پیش آیا ہو تو فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟
٭ آج کے مسلمان کو چاہئے کہ اپنا ایک مثبت ذہن بنائیں اور ایک مثبت لائحہ عمل ۔مختلف شعبوں میں مختلف لوگ منسلک ہوجائیں، اور سکونت و حسنِ اخلاق سے کام کرتے چلے جائیں، تو یقینا کامیابی آج نہیں تو کل قدرتِ کاملہ کی جانب سے بلحاظِ قانونِ فطرت ملے گی۔اوپر پیش کیے گئے خیالات سے اتفاق رکھنا ضروری نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور ی ہے یہ دیکھیںکہ ان خیالات میں حقیقت کی بو ہے کہ نہیں؟
٭ اگر حقیقت کی بو نہیں ہے تو اس تحریر کو نظر انداز کر دیجئے۔
٭ اگر حقیت کی بو اور عناصر محسوس کر رہے ہیں توآپ کا کیا رد عمل ہے؟
تحریر : احمد نثار
اکیڈمیشین، سماجی سائنسداں