نور بصیرت نوائے و قت کا ایک معروف کالم ہے۔ عام فہم زبان، سیدھی اور کھری بات، حق گوئی و بے باکی، آپ نور بصیرت کا ذکر کریں، فوری طور پر آپ کو میاں عبدالرشید مرحوم یا د آ جائیں گے، مجھے اللہ نے یہ عزت دی کہ میں نور بصیرت کے دور میںنوائے و قت کا ڈپٹی ا یڈیٹرتھا، روز نہیں تو تیسرے چوتھے روز میاںصاحب سے ضرور ملاقات ہو جاتی، وہ خود کالم لے کر دفتر تشریف لاتے، دفتر میںملاقات کودیر ہو جاتی تو میں ایک گلی پار کر کر سمن آباد میںان کے در دولت پر حاضر ہو جایا کرتا تھا، میاں صاحب کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ، ان کی شہادت کی خبر صبح سویرے اس وقت ملی جب میں دفتر کے سامنے گاڑی پارک کر رہا تھا، میرے مرشد مجیدنظامی کی گاڑی انہیں اتار کر واپس جا چکی تھی، اس لئے وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے، ہم میاں صاحب کے گھر پہنچے،نور بصیرت عام کرنے والا اپنے خالق کے روبرو پہنچ چکا تھا، نشان مرد مومن اقبال نے بیان کیا کہ چوںمرگ آید تبسم بر لب اوست، خالق سے ملنے کی خوشی میںمیاں ساحب کے ہونٹوںسے تبسم کی کرنیں پھوٹ رہی تھیِ گو ان کا جسم لہو لہان تھا۔
آج میںنے نور بصیرت کے سرچشمے کو پا لیا، یہ میری زندگی کی ایک عظیم خوش بختی ہے کہ میاں عبدالمجید نے مجھ سے کہا کہ ان کے آبائی گاﺅں کے اسکول میںمیں تقسیم ا نعامات کی تقریب ہے، میرے ساتھ چلو، میں نہ نہیں کہہ سکتا تھا، میاں عبدالرشید مرحوم کے چھوٹے بھائی، ان کی نشانی، مجھے حکم دیں تومیں کیسے انکار کرتا، ان کے ساتھ صبح سویرے گوجرانوالہ بائی پا س کے ذریعے کلاسکے پہنچے، اسکول میں بہار کا میلہ سجا تھا، اسکاﺅٹ چوکس قطار اندر قطار کھڑے تھے ، اساتذہ کے ہجوم نے اپنے جلو میں لیا۔گلاب کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔ علم کے نور کے ہالے میں پوری فضا لپٹی ہوئی تھی، مجھے اقرا کی پہلی وحی کی آواز سنائی دی، پڑھ، میں امی ہوں، پڑھ میں امی ہوں اور خدا نے اپنی امت کا امتیاز یہ بنایا کہ تعلیم اس کے لئے فرض قرار دے دی، مدینہ کی چھوٹی سی مسجد میں پہلی اسلامی یونیورسٹی قائم ہوئی، آپ اصحاب صفہ کہہ کر اس کی عظمت ا ور عظیمت کم نہیںکرسکتے ۔ کلاسکے کا گورنمنٹ ہائی اسکول بھی اسی پہلی اسلامی یونورسٹی کی ایک شاخ ہے جہاں سے میاں عبدالرشید نے تعلیم حاصل کی، ان کے والد گرامی میاں امام دین نے بھی ا سی ا سکول میں زانوئے تلمذ تہہ کیاا ور ان کے چھوٹے بیٹے میاں عبدالمجید بھی وہیں کے فارغ التحصیل ہیں، وہ مانچسٹریونیورسٹی میں ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کے کلا س فیلو رہے مگر کلاسکے اسکول نے جو پہلی اینٹ رکھ دی تھی، ساری عمارت اسی پر استوار ہوئی۔ اسی اسکول میں کوئی استاد ہو گا جو تاریخ میں بے نام رہے گا، اقبال کے استاد کو ہر کوئی جانتا ہے مگر میاں عبدالرشید کے سینے کو نور بصیرت سے کس استاد محترم نے منور کیا ، ا سکا کھوج لگانے کی ضرورت ہے، میں نے آج ا س درسگاہ کی تو زیارت کر لی، میری آنکھیں اس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئیں۔
تعلیم آج کے دور میں کاروبار ہے ، بگ بزنس ہے ، کارپوریٹ سیکٹر کے کنٹرول میں ہے مگر جو تعلیم ٹاٹ سکولوں میں ملتی ہے، اس کا ثانی نہیں ملتا، میاں عبدالرشید کے چھوٹے بھائی نے اپنی مادر علمی کو فراموش نہیں کیا، ماں کو وہی بھول سکتا ہے جو اس رشتے کے تقدس اورا سکی عظمت اور رفعت سے نا آشنا ہو۔ یہ اسکول صرف دو کمروں پر مشتمل تھا، آج اس کے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو نظرخیرہ ہو جاتی ہے ، اونچی چار دیواری، نئے کمرے، وسیع لان اور صاف ستھری یونیفارم میں ملبوس طالب علم حصول علم میںمستغرق، سادہ مزاج اساتذہ جن کے ذہن علم کاکمپیوٹر ہیں اور جن کے دل خلوص سے مالا مال ہیں ، وہ علم کی دولت پر سانپ بن کر نہیں بیٹھتے، وہ علم کی جنس کو نایاب نہیں بناتے، وہ علم کی خرید و فروخت نہیں کرتے، ہم نے نمایاں پوزیشن لینے والے طالب علموں کو شیلڈیں دیں، ان کے اساتذہ کوخصوصی انعامات دیئے، طالب علموں کی زبان سے تلاوت قرآن سنی، نعت مبارکہ کی لذت پائی، اور قومی ترانوں کی گونج سے دل کو گرمایا۔اساتذہ اور طالب علموںمیں وہ رشتہ دیکھا جو باپ ا ور بیٹے کے درمیان ہوتا ہے ، یہ روحانی رشتہ ہے، خون سفید ہو سکتا ہے ،رشتوں کی پہچان مٹ جاتی ہے، مگر روحانی رشتے پائیدار ثابت ہوتے ہیں، استاد کے سامنے طالب علم آ نکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، میں نے اپنے ایک ا ستاد کا ذکر چھیڑا تو چند ثانیوںکے لئے میرا سانس رک گیا، میری آنکھ سے ا یک آنسو ٹپکا اور سامنے بیٹھے پندرہ سو طالب علم اس کی موسلا دھاربارش میں نہا گئے۔
یہ ایک قابل تحسین رجحان ہے کہ جو لوگ آج خوش حال ہیں یا کسی اعلی منصب پر فائز ہیں، انہوںنے اپنی پہلی درسگاہ پر تمام تر توجہ مبذول کر رکھی ہے۔ میںنے پچھلے دنوں سابق نیول چیف جناب آصف سندھیلہ کا ذکر کیا تھا، جو شیخوپورہ میں اپنے ا ٓبائی گاﺅں کی بہتری کے لئے کوشاں ہیں۔میںنے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اس قدر بڑا نسان ا ور اس قدر چھوٹا کام ا ور خود ہی جواب دیا تھا کہ یہ چھوٹا سا کام ایک بڑے کارنامے سے بھی بڑا ہے۔میاں عبدالمجید بھی بزنس میں ایک بڑا نام ہے، وہ چاہتے تو ایک اسکول کیا، سینکڑوں اسکولوں کی چین شروع کر سکتے تھے، اگر وہ ایک بزنس میںکامیاب ہیں نئے بزنس کو بھی کو بھی آسمان کی بلندیوں تک لے جاتے ، مگر نہیں۔ نہ ایڈمرل آصف سندھیلہ نے، نہ میاں عبدالمجید نے ایک لمحے کے لئے بھی سوچا کہ ان کی زندگی کا واحد مقصد محض پیسہ بنانا ہے۔ میاں عبدالمجید ایک نہیں ، دو بزنس کر رہے ہیں اور دونوںمیں ان کا کوئی ہمسر نہیں، ان کا ایک بزنس پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں ہمارا کوئی سفارت خانہ نہیں ، وہاں میاں عبدالمجید کی مصنوعات نے ہلای پرچم بلند کرر کھا ہے مگر میاں صاحب نے پلٹ کر دیکھا ، جیسے ایڈمرل آصف سندھیلہ نے پلٹ کر اپنے بچپن کی طرف دیکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنے آبائی گاﺅں کے آج کے بچوں کے بچپن کو اپنے دور کے بچپن سے بہتر بنائیں گے، ان کو ٹاٹ سے اٹھا کر بنچوں پر بٹھائیں گے، ان کے لئے ہنر مندی کی کلاسیں شروع کریں گے، ان کے لئے سائنس اور کمپیوٹر لیبس کا انتظام کریں گے۔انہیں عزت نفس سے سرشار کریں گے۔
میں اس علم و معرفت کی تقریب سے رخصت ہوا تو میرے ہونٹوں پر یہ دعا تھی
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
نور بصیرت کے اس سرچشمے تک مجھے محترم میاں عبدالمجید نے رسائی دی،وہ اس تقریب کےلئے کراچی سے تشریف لائے تھے ، میں ان کا تہہ دل سے مشکورہوں کہ اپنے نوائے وقت کے بزرگ اور مرحوم ساتھی میاں عبدالرشید کی جنم بھومی کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا۔ کلاسکے گاﺅں کی فضائیں نور بصیرت کی روشنی سے لبریز ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت