فرانس (جیوڈیسک) فرانس کے جنوبی شہر نیس میں قومی دن پر جشن کے دوران ایک تیز رفتار ٹرک نے ہجوم کو کچل دیا جس میں 80 افراد ہلاک اور 50 زخمی ہیں۔ ملک کے صدر نے اس واقعہ کو ’دہشت گرد حملہ‘ قرار دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ اُس وقت ہوا جب قومی دن کی تقریبات میں لوگ آتش بازی کا مظاہرہ دیکھ رہے تھے۔ ملک کی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے 18 افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ٹرک کے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے جبکہ ٹرک میں سے بندوقیں اور گرنیڈ ملے ہیں۔
فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرک ڈرائیور تیونسی نژاد فرانسیسی تھا اور ممکنہ طور وہ نیس کا رہائشی تھا۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک کے صدر فرانسوا اولاند نے ملک میں نافذ ایمرجنسی میں مزید تین ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ جس کے بعد فرانس میں سکیورٹی کے پولیس کے ساتھ فوج بھی تعینات رہے گی۔
نیس میں دہشت گردی کے واقعے فوری بعد دارالحکومت پیرس میں ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں صدر اولاند نے کہا کہ ’فرانس کو بری طری نشانہ بنایا گیا ہے اور ہمیں اس طرح کے حملے روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پورے فرانس کو اسلامی شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔‘
یاد رہے کہ پیرس میں گذشتہ سال نومبر میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے اور یہ ہنگامی حالات 26 جولائی کو ختم ہونا تھیں۔ ٹوئٹر پر پوسٹ کی جانے والی ایک تصویر میں تقریبا ایک درجن افراد کو سٹرک پر لیٹے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نیس کے میئر کرسچن سٹراسی نے کہا ’ٹرک ڈرائیور نے بظاہر درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔‘ نیس کے میئر اور پولیس نے لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی ہے۔
صحافی کا کہنا ہے کہ جائے وقوع پر ’بہت زیادہ خون اور متعدد افراد زخمی ہیں۔‘ ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ آتش بازی کے مظاہرے کے اختتام کے دوران پیش آیا۔ ان کا مذید کہنا تھا ’ہم نے کئی افراد کو زخمی حالت میں دیکھا۔‘
ایک عینی شاید نے فرانس کے بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا ’ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ بھاگو بھاگو، یہاں حملہ ہو گیا ہے، بھاگو بھاگو۔‘ عینی شاید کے مطابق ہم نے کچھ دھاکے سنے تاہم ہمارا خیال تھا کہ فرانس کے قومی دن کے حوالے سے کی جانے والی آتش بازی کی وجہ سے ہے۔
ایک اور عینی شاید رائے کیلے نے بتایا ’جس وقت یہ حادثہ پیش آیا تو وہاں ہزاروں افراد جمع تھے۔‘