تحریر: ایم آر ملک
حاجی غلام فرید خان میرانی کا تعلق جنوبی پنجاب کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنایا وہ بیک وقت چیئرمین ضلع کونسل لیہ اور ایم این اے رہے منہ پر بات کرنا اور سچ کہہ دینا اُن کا شیوہ ہے جونیجو کی اسمبلی میں جب ہر کوئی جنرل ضیاء کی خوشنودی کا خواہاں تھا اور ایک آمر کے خلاف بات کرنا بھی جرم تھا سردار فرید خان میرانی نے جنرل ضیاء کے منہ پر اُس کی آمریت کی نفی کرتے ہوئے جمہوریت کی بات کی۔
لیہ میں کچھ لوگ یہ تاثر لیکر چلتے ہیں کہ فرید خان میرانی نے وقت کے عظیم سنگر عزیز میاں قوال کو دیکھنے کیلئے جب لوگ اُمڈ آئے تو ایک ایس ایچ او کو تھپڑ جڑ دیا یہی اُن کی سیاست کا نقطہ عروج تھا لیکن ایسا نہیں فرید خان کہتے ہیں کہ میں بھی انسان ہوں میرے اندر بھی ایک انسان کا دل دھڑکتا ہے میں نے اُسے تھپڑ محض اس لئے مارا تھا کہ وہ نہتے اور مجبور عوام پر تشدد کر رہا تھا مجھے جب اس تشدد کی بابت معلوم ہوا تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے اُسے تھپڑ مار دیا گزشتہ روز اُس سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں اُنہوں نے ماضی کے بہت سے دریچے وا کئے جو عرصہ دراز سے بند تھے۔
سیاست میں اِن ہونے پر جب بحث ہوئی تو اُن کا موقف تھا کہ میرے والد محترم کوئی ایکٹو سیاست دان نہیں تھے میں 1979میں ممبر ضلع کونسل بنا تب ضلع مظفر گڑھ ہوا کرتا تھا ہم نے اپنے وقت کے اُس سیاست دان کے مقابلے میں اپنا اُمیدوار اُتارا جس کی سیاست کا طوطی بولتا تھا جنوبی پنجاب میں جس خاندان کا دبدبہ تھا یعنی غازی کھر اور غازی کھر کے مقابلے میں ہمارا اُمیدوار نیاز پنوار تھا ہم نے عوام کی خاطر اپوزیشن کا کردار خوب نبھایا اور ایک وقت ایسا آیا جب ہم نے غازی کھر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی مگر لیہ ہی سے ایک ممبر ضلع کونسل محمد بخش میلوانہ ہمارا ساتھ چھوڑ گیا اس طرح ہم تحریک عدم اعتماد میں شکست کھا گئے۔
میں نے جب اُن سے پوچھا کہ آج سیاست میں کرپشن در آئی ہے کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں ؟تو اُن کا جواب بڑا مدلل تھا کہ سیاست میں کرپشن کا بیج میاں برادران نے بویاشہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف جب عدم اعتماد پیش کی گئی تو نہ صرف ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پڑی بلکہ میاں برادران نے ممبران اسمبلی کی بولی لگائی اور پیسہ اُسامہ بن لادن نے فراہم کیا سیاست میں کرپشن کا یہ پہلا دروازہ تھا ”جیکالز مڈ نائیٹ ”ایک معروف کیس ہے جو آج بھی اس کرپشن کو ننگا کرتا ہے جب میں نے پوچھا کہ سرائیکی صوبہ پر آپ کی کیا رائے ہے تو اُن کا جواب برا مدلل تھا اُن کا کہانا تھا کہ جنوبی پنجاب خصوصاً سرائیکی خطہ کی محرومیوں کی داستانیں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں اور عصر حاضر کے حکمرانوں نے ان محرومیوں اور مسائل کو ہمیشہ نظر انداز کیا پنجاب کی آبادی اس وقت 11کروڑ ہے جس میں سات کروڑ سرائیکی ہیں کثیر آبادی کی وجہ سے فوج اور بیورو کریسی کا حصہ اس میں زیادہ ہے وطن عزیز کا صدر مقام اور ملٹری ہیڈ کوارٹر بھی اسی صوبہ میں ہے این ایف سی ایوارڈ میں تاخیر اور اس کے مطابق رقوم کی عدم تقسیم کی وجہ سے دوسرے صوبے پنجاب کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ بیورو کریسی کے تسلط کو بھی پنجاب سے منسوب کرتے ہیں سابقہ مشرقی پاکستان کے غریب باسی جن کی ترقی کیلئے کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی وہاں کے یہ باسی بھی مغربی پاکستان سے آنے والی بیورو کریسی کو اپنے حقوق کا غاصب تصور کرتے جس کی بنا پر ان میں احساس محرومی پیدا ہوا اور بالآخر وہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا۔
جنوبی پنجاب اس وقت ملک میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا خطہ ہے جس کی پیداوار ملکی پیداوار کا 75فیصد ہے دنیا کی بہترین کوالٹی اور لمبے ریشے کی اعلیٰ میعار کپاس کی پیداوار کے باوجود حکومتی عدم توجہی نے خطے کے باسیوں کو محرومی و پسماندگی کے اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا ٹیکسٹائل سٹی ،کاٹن جیننگ ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ،ٹیکسٹائل یونیورسٹی ،گارمنٹس سٹی ،ایکسپورٹ پروسیسنگ زون ایگزی بیشن سنٹر ز ،انڈسٹریل زون جیسے اہم منصوبوں کے اعلانات کیئے گئے لیکن عملاً ایک بھی منصوبہ شروع نہ کی گیا 13اضلاع کیلئے سابقہ حکومتیں منصوبہ جات کے محض وعدے کرتی رہیں اُن پر پیش رفت کوئی بھی نہ ہوسکی فیصل آباد ،لاہور ،کراچی میں کپاس سے منسلک صنعتوں کے قیام اور فروغ کیلئے پیکیج اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔
تحریر: ایم آر ملک