دریائے سندھ دلوں کو جوڑتا ہواجہاں جہاں سے گزرتا ہے وہ سب ہی سندھ ہے۔ انڈس سیویلائزیشن یونہی تو نہیں کہا جاتا۔ مگر اس کا تعلق کسی سیاست سے تو ہرگز ہو نہیں سکتا۔ ہاں ہوا کچھ یوں کہ سندھ کو بمبئی سے الگ کر دیا گیا اور یہی سندھ کی جدید سیاست کا پہلا باب ہے۔
جنوبی سندھ صوبہ، سندھ کی سیاست میں نئے باب کو نہیں جنم دے گا بلکہ الگ سے ہی ایک نئی کتاب وجود میں آئے گی۔ یہ کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے جیسے سرحد کا نام نسل پرستوں نے پختونخوا رکھنے پر اصرار کیا اور آخر کار نسل پرستی کی علامت وجود میں لانے میں کامیاب بھی ہوئے۔
عبدالغفار خان کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ باچا خان ائیرپورٹ اور باچا خان یونیورسٹی ایک ایسے شخص کے نام پر بنے ہیں جوانیس سو اٹھاسی میں دنیا سے گیا اور وصیت کے مطابق جلال آباد، افغانستان میں دفن کیا گیا۔ یہ وہی سال ہے جب شہری سندھ میں لسانی جماعت ایم کیو ایم نے پارلیمنٹ میں قدم رکھا۔
فخر افغان کہلانے والے شخص کے نام پر ائیر پورٹ اور یونیورسٹی کے نام رکھنا بھی غیر مناسب ہے۔ جیسے بانی ایم کیو ایم کے نام کو ہر جگہ سے ختم کیا گیا ایسے ہی باچا خان کے ساتھ بھی ہونا ضروری ہے ورنہ یہ مہاجروں کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوگی۔
مجھے یاد ہے کراچی میں ہزارے وال اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے اور حلیم عادل شیخ نے اس وقت میری کال سنی اوراپنا اورمشاہد سید کا ای میل عنایت کر دیا۔ جس پر میں نے انہیں تفصیلی میل کی اور اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جو چوھدری شجاعت نے صوبے کے نام پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔
صوبہ ہزارہ کے نام پر ہزارے وال متحد ہو چکے ہیں جبکہ اصل کشمکش تو ہندکو اور پشتو کی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پشتو بولنے والے افغان پورے صوبے پر قابض ہیں۔ چاہے کوئی بھی پارٹی ہو ظلم بند نہیں ہوتا۔ یہی کچھ کراچی میں بھی ہو چکا ہے۔
کبھی یوپی اور سی پی سے آنے والوں کو بھی دھتکار دیا گیا مگر وہ بھی اپنے اہل بولی ہونے کے زعم میں رہ گئے۔ گرچہ ایسٹ پنجاب سے آنے والے مہاجر کی جگہ پنجابی ہی کہلائے۔ ستر میں تو اردو کا جنازہ ایسے اٹھا کہ سندھی کو اردو کے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ اسی کے عشرے میں یونہی تو مہاجر لفظ وجود میں نہیں آگیا۔ ملک بھر سے لوگ کراچی آباد ہو رہے تھے جس کی وجہ سے کراچی پھیل رہا تھا اور اس پر ظلم و ستم بھی وسیع ہو رہے تھے۔ سندھی مہاجروں کو قبول نہیں کر رہے تھے تو مہاجر پاکستان بھر سے آنے والوں کو جو افسوس ناک امر تھا۔اردو اسپیکنگ کا لفظ اسی وجہ سے تو وجود میں آیا کہ یوپی سی پی والوں کی بولی اردو ہے۔ البتہ اردو پورے ملک کی زبان ہے۔ اسی وجہ سے تو تحریک نفاذ اردو کے پروفیسر سلیم پنجابی اسپیکنگ ہوتے ہوئے بھی مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو درج کرواتے ہیں۔
نفاظ اردو کی تحریک کا مرکز لاہور ہے۔ مقدمہ بھی لاہور کی عدالت میں درج کیا گیا اور وہیں اردو کو بطور زبان لاگو کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جبکہ کراچی میں اردو صرف بولی کے طور پر جانی جاتی ہے وہ بھی یوپی اور سی پی والوں کی۔ اسی وجہ سے تو گجراتی اسپیکنگ فاروق ستارنئے پارٹی سربراہ کے طور پر آسانی سے اپنی جگہ بنا نہیں پائے بلکہ ابھی تک محنت کر رہے ہیں۔
تم صرف بولتے ہو، ہم اردو لکھتے بھی ہیں، یہی اہل پنجاب کی سوچ ہے۔ کیا ہی لکھتے خوب ہیں اور سارے یوپی اور سی پی کے مہاجروں کو پنجاب بلکہ پاکستان کے دل لاہور میں جگہ دی اور کبھی جتایا بھی نہیں۔ جبکہ سندھ میں تو ایسا ہوا کہ نفرت ہی کم ہونے کا نام نہیں لیتی ہے۔
سنا تو تھا کہ اندرون سندھ میں سب ہی سندھی اسپیکنگ ہیں مگر ایک بڑی تعداد سرائیکی بھی بولتی ہے ان کو بھی تو مقام دینا ہوگا وہ کیسے مل سکتا ہے جبکہ اردو اسپیکنگ ہی برداشت نہیں ہو رہے۔ پھر ایسے وقتوں جنوبی سندھ صوبے کی صدا ایسی لگی ہے کہ رکتی نظر نہیں آتی۔ پہلے آفاق احمد جنوبی سندھ نعرے کے ساتھ لالو کھیت دس نمبر ہر جلسہ کرنے چلے آئے۔ اب فاروق ستار کو بھی لائف لائن گویا مل گئی ہو۔ وہ بھی اسی مقام پر ہفتہ چھبیس مئی دو ہزار اٹھارہ کی شب تقریب کر گئے۔
جنوبی پنجاب کا نعرہ بھی تو سندھ سے ہی لگا تھا وہیں سے کراچی میں مقیم مہاجروں کی اولادوں کی ذہن میں بھی جنوبی سندھ کا خیال وارد ہوا۔ انہوں نے سوچا کہ سندھ والے اتنے دریا دل ہو چکے ہیں کہ پنجاب میں صوبہ بنانے چلے ہیں تو پھر تو وہ بخوشی شہری سندھ کو بھی صوبے کا درجہ دے دیں گے۔
ہوا کیا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے تو ایسی سوچ پر ہی لعنت بھیج دی۔ جیسے وسیم اختر، “پنجاب کے گھر گھر میں مجرا ہوتا ہے” جیسا متعصب بیان دینے کے باوجود کراچی کے میئر بنا دیئے گئے۔ دوہرا معیار کب تک چلے گا۔ بلکہ کراچی کا ووٹر تو اب پی ٹی آئی کو بھی اپنے سامنے پاتا ہے۔ ایسے میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ صوبہ ہزارہ سے جو آواز اٹھی وہ صوبہ پوٹھوہار اور پھر جنوبی پنجاب سے ہوتی ہوئی اب جنوبی سندھ صوبہ تک چلی آئی ہے۔
کچھ بھی ہو شہری سندھ میں ملک بھر سے لوگ موجود ہیں۔ صرف مہاجر ہی یہاں نہیں رہتے۔ یہ بات مہاجروں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو سمجھنی ہوں گی اور کراچی میں اس مرتبہ دیگر قومیتوں کے لوگوں کو بھی الیکشن میں ٹکٹ دینے ہوں گے اور ملازمتوں میں بھی حصہ دینا ہوگا۔ جبھی دیگر لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ان کے بغیر آپ جنوبی سندھ صوبہ نہیں بنا سکتے۔ ساتھ ہی پی آر سی جیسا ڈرامہ بھی ختم کرنا ہوگا۔ جو بھی کراچی جیسے میگا سٹی میں مقیم ہے، اسے ملازمت کا بھی حق حاصل ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انیس سو اسی کے بعد پاکستان بالخصوص کراچی میں آنے والے غیر ملکیوں سے پاکستانی شناختی کارڈ واپس لے کر انہیں نادرا کے تحت رجسٹر کرنا ہوگا۔ یہ سب ہوگا جبھی لوگ پاکستانیوں کو برابر کے حقوق ملیں گے۔
الیکشن میں فیصلہ تو آپ کے ووٹ سے ہی ہوگا۔ لسانی و نسل پرستی کو مزید فروغ دینا ہے یا کراچی کی سیاست میں وفاقی سیاست کو ووٹ دینا ہے جو آپ کو جنوبی سندھ صوبہ بھی بنا کر دے سکتی ہے۔ سوچئے گا ضرور۔