سابق وزیرِاعظم محترم نواز شریف تین دفعہ منتخب وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ پہلی دفعہ وزیرِاعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا، دوسری دفعہ جبراً برطرف کیا گیا اور تیسری دفعہ عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے کا سامناکرنا پڑا۔ میاں صاحب جب دوسری دفعہ منتخب ہونے کے بعد برطرف ہوئے اور بغاوت جیسے مقدمات کا سامنا کرکے سزایافتہ کہلائے تو ایک معاہدے کے بعد سعودی عرب روانہ ہوگئے اور سوچ و بچار میں مصروف ہوگئے کہ میرے ساتھ دوسری دفعہ کیسے ہاتھ ہوگیا۔ جب کچھ سمجھ میں آیا تو میثاق جمہوریت کا خیال سوجھا اورمرحومہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کرلیا۔
2008ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہوئے لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی قیادت سے اختلاف کے باعث مخلوط حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے ایک طویل جلوس کی قیادت کرکے چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر بحال کرانے کا سہرا اپنے سر پر سجایا۔ میاں صاحب نے میمو گیٹ اسکینڈل میں جہاں کالا کوٹ زیب تن کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوایا، وہیں سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے جب سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تو اپنے گراں قدر مشورے سے بھی نوازا کہ پہلے آپ استعفیٰ دیں اور مقدمے کا سامنا کریں، اگر بچ نکلیں تو دوبارہ عہدہ سنبھال لیں۔ لیکن پانامہ کیس میں جب ان کی ذات گرامی پر خود مقدمہ قائم ہوا تو جو مشورہ سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو دیا تھا، ذہن سے محو ہوگیا۔
نااہلی کے فیصلے کا سامنا کرنے کے بعد میاں صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ وہ تین دفعہ وزیرِاعظم رہنے کے بعد کہنہ مشق وزیرِاعظم اور سیاست دان کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ اب کوئی سیاسی یا غیر سیاسی عہدہ ان کے شایان شان نہیں ہے۔ ان کی شخصیت تمام دنیاوی عہدوں سے بالاتر ہوگئی ہے۔ اس لیے وہ اکثر عالمِ بالا میں ہی بحالت مراقبہ رہتے ہیں اور عام سمجھ سے بالا بیانات جاری کرتے رہتے ہیں۔ عالمِ بالا میں رہنے کے باعث قریبا ہر دوسرے تیسرے روز ان کا نظریہ اور بیانیہ سامنے آتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں فرمایا کہ میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے۔ یقیناً میاں صاحب کی نظریں اب اوپر کی ہی جانب رہتی ہیں کیونکہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک فرما چکے ہیں کہ ان کو حکم اوپر سے آتا ہے۔
جب میاں صاحب اوپر کی طرف نظریں ٹکائے ہوئے اپنی نااہلی کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں وطن عزیز میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا پر غور کررہے تھے تو عالم غنودگی میں ان کو خلا میں کئی ہیولے نظر آئے جن کو انہوں نے اپنی بے نظیر فہم و فراست کی وجہ سے فوری پہچان لیا کہ یہ وہی خلائی مخلوق ہے جس سے میرا مقابلہ ہے۔ ان میں سے ایک ہیولہ سیاست دانوں کو بے ایمان کہہ رہا تھا اور دوسرا نشے میں دھت پھر رہا تھا اور تیسرا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا رہا تھا، جب کہ چوتھا کہہ رہا تھا سب کا احتساب ہوگا، کوئی نہیں بچے گا۔
جب یہ خبر داماد اول تک پہنچی، جو بذات خود ابوالفتح عبدالرحمن منصور الخزینی کے علوم پر دسترس رکھتے ہوئے کھرے کھوٹے کی پہچان کے ساتھ ستاروں کی چال سے بھی واقفیت رکھتے ہیں، نے کہا میاں صاحب میں تو اول دن سے آپ کو پہنچی ہوئی شخصیت سمجھتا ہوں۔ آپ کا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے کیونکہ کرہ ارض پر رہنے والا کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ آپ فوری طور پر خلائی مخلوق سے مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لیں۔ میاں صاحب نے ایسا ہی کیا۔
جب یہ خبر جناب خواجہ آصف اور احسن اقبال صاحب تک پہنچی تو فوراً میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی فوج کے اول دستے میں شامل ہیں۔ جب آپ خلا کا اقامہ بنوائیں تو ہم دونوں کا بھی بنوا دیجیے گا تاکہ خلائی مخلوق سے ڈٹ کر مقابلہ کریں اور خلا میں رہنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ داماد اول نے یہ سب سن کر کہا، کرہ ارض پر جنگ و جدل کی تربیت میں آپ سب حضرات کو دے سکتا ہوں لیکن خلا میں لڑنے کا مجھے کوئی تجربہ نہیں کیونکہ میں تو فوج میں صرف کپتان تھا، کوئی جرنیل تھوڑی تھا۔
کمرے میں سنجیدہ ماحول طاری تھا اور مسلم لیگ (ن ) کے سارے سرکردہ رہنما ماسوائے چوہدری نثار علی خان کمرے میں موجود تھے کہ یکدم جناب عابد شیر علی ہنستے کھیلتے کمرے میں داخل ہوئے اور ٹی وی آن کردیا۔ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلائی فوج بنانے کا اعلان کردیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جیسے پاکستان میں سیاسی حالات چل رہے ہیں، ایسے حالات کا سامنا ہم کو بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس طرح کے سیاسی خلا کو پورا کرنے کے لیے خلائی فوج کی تشکیل نا گزیر ہے، سو قوم تیاری پکڑے۔ صورتحال ایسی ہے جیسے جنگ ویتنام کے زمانے میں تھی، لیکن اس دفعہ امریکی خلائی فوج مانع حمل ادویات ضرور استعمال کرے ورنہ خلائی مخلوق تارکین خلا کی صورت میں امریکہ میں آبسے گی اور متاثرہ خلائی مخلوق کو تاوان علیحدہ دینا پڑے گا۔
سینیٹرمشاہد حسین بھی صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے کہ یکدم پرچی منگوائی اور اس پر کچھ لکھ کر میاں صاحب کے ہاتھ میں تھمادی۔ میاں صاحب کی قریب کی عینک دستیاب نہیں تھی کیونکہ ان کو اب ویسے بھی دور کی سوجھتی ہے۔ اس لیے میاں صاحب نے محترمہ مریم اورنگ زیب کو پرچی دی اور کہا، آپ سب کو پڑھ کر سنادیں۔ مریم اورنگ زیب صاحبہ نے فرمایا، یہ پر چی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ہے۔ اس میں آپ کے سارے سابقہ سیاسی و غیر سیاسی کوائف لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ پاکستان میں جو سیاسی خلا آپ کی نااہلی کے بعد پیدا ہوگیا ہے، وہ خلائی مخلوق کا پیدا کردہ ہے۔ مجھے ابھی اطلاع ملی ہے کہ آپ نے خلائی فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پرچی کو میری درخواست تصور کریں اور اپنی خلائی فوج میں مجھے بھی شامل کرلیں تاکہ میں خلائی مخلوق سے مقابلہ کرکے وطن عزیز کا سیاسی خلا جلد از جلد پورا کروں۔
محترمہ مریم اورنگ زیب کے خاموش ہونے تک حاضرین کمرہ کے پژمردہ چہروں پر رونق آ چکی تھی۔ سب نے سینیٹر صاحب کی طرف ستائشی نظروں سے دیکھا اور میاں صاحب سے کہا کہ یہ پرچی فوری طور پربالمشافہ ملاقات میں صدر امریکہ کو دے دینی چاہیے تاکہ خلائی فوج میں شمولیت اختیار کرکے خلائی مخلوق کو شکست دے کر وطن عزیز کا سیاسی خلا پر کیا جاسکے۔ کیونکہ سابق صدر زرداری بھی متوقع انتخابات کے بعد معلق ایوان کی پیش گوئی کر چکے ہیں اور چیزیں خلا میں ہی معلق ہوا کرتی ہیں۔