اختلاف کو جمہوریت کا حسن بتایا جاتا ہے لیکن اگر یہ انسانی زندگی کے لئے مصائب کا سبب بن جائے تو یہ کرب بن کر رہ جاتا ہے۔ سندھ اور وفاقی حکومت میں تعلقات کار بگڑتے بگڑتے نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ اب بول چال بھی بند ہے۔ وزیراعظم گزشتہ ہفتے کراچی آئے تو وزیراعلیٰ سندھ خیر مقدم کرنے والوں میں نہیں تھے۔ بعد میں جتنی بھی میٹنگیں ہوئیں، حکومت سندھ کی نمائندگی کسی سطح پر نہیں تھی۔ حکومت سندھ کے ایک ترجمان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ طریقہ کار یہ ہے کہ اسلام آباد سے کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے اطلاع دی جاتی ہے کہ وزیراعظم کا استقبال کرنے والوں میں کس کس کو آنا ہے۔ اس بار ایسا کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ پہلے بھی یہ ہوتا رہا ہے۔ وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والی میٹنگوں میں وزیراعلیٰ کو نہیں بلایا جاتا۔
وفاق کے ان رویوں سے سندھ میں صرف حکومتی حلقوں میں ہی نہیں عوام میں بھی اضطراب بڑھ رہا ہے۔ دو صوبوں میں تو اسلام آباد کی حکمراں پارٹی ہی حکومت میں ہے۔ بلوچستان قریباً ہم نوا ہے۔ صرف سندھ ہے جہاں دوسری پارٹی کی اکثریت ہے۔ یہاں وزیراعظم کے لئے موقع تھا کہ وہ ایک جمہوری حکمراں ہونے کا ثبوت دیتے۔ سندھ کے ساتھ اتنا فراخدلانہ سلوک کرتے کہ آئندہ یہاں پی ٹی آئی کی حکومت کے امکانات روشن ہوتے۔ ان کے موجودہ رویے سے سندھ میں پی پی پی کو قدم جمائے رکھنے کا مزید موقع مل رہا ہے۔ اس لئے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ دوسرے وزراء بالخصوص مشیر برائے اطلاعات و قانون جواں سال مرتضیٰ وہاب جب وفاقی حکومت کے خلاف سندھ کا مقدمہ پیش کرتے ہیں تو صرف سندھ کے نہیں دوسرے صوبوں کے عوام بھی اس پر یقین کرتے ہیں۔
حکومت سندھ واحد اپوزیشن حکومت ہے لیکن اسلام آباد میں اس کی کوئی لابی یا ترجمان نہیں ہے جو اسلام آباد کے حکومتی حلقوں اور میڈیا میں سندھ کا موقف روزانہ جاری کرتا رہے۔ اس لئے وہاں ایسی آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ سندھ حکومت اپنی نا اہلی اور کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لئے اسلام آباد پر الزامات عائد کرتی ہے۔ سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں لسانی امتیاز بھی بہت سے تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت سے جس انداز کے گلے شکوے ہیں بالکل اسی طرح کی شکایتیں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کو صوبائی حکومت سے ہیں کہ ان کے فنڈز جاری نہیں کئے جارہے ہیں، وہ ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے پارہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھتے رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ وزیراعظم کے نام خط بھیجتے رہتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو فنڈز جاری نہ کئے جانے پر اعتراض کے جواب میں حکومت سندھ کے ایک ترجمان کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی طرف سے بجٹ کے طے شدہ تخمینے سے 125ارب روپے کم جاری کئے گئے، جس سے ساری اسکیمیں متاثر ہوئیں۔ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں کو پورے فنڈز نہیں دے سکی۔ اس طرح کراچی کے لئے بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی کے منصوبے کے فور کے لئے وفاقی حکومت نے 50فیصد ادائیگی کا ذمہ لیا تھا، وہ پورا نہیں کیا۔ پھر اس منصوبے پر صحیح انداز میں سوچا نہیں گیا۔ اس لئے اس کی لاگت بڑھتی جارہی ہے، اب یہ 50ارب ہوگئی ہے۔ وفاقی حکومت اپنا حصّہ نہیں دے رہی۔ اس طرح سکھر بیراج کا استحکام سندھ ہی نہیں پورے ملک کے لئے ایک اہم منصوبہ ہے لیکن وفاقی حکومت نے آئندہ سال کے ترقیاتی پلان میں اسے شامل ہی نہیں کیا۔
حکومت سندھ کے ایک اہم عہدیدار کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10ماہ میں نیشنل فنانس کمیشن کے فنڈز میں سندھ کا حصّہ 132ارب بنتا تھا، وہ ادا نہیں کیا گیا۔ اس طرح قدرتی گیس اور پانی میں سندھ کا آئین کے تحت جو حصّہ بنتا ہے وہ بھی پورا نہیں دیا جارہا ہے۔ آئندہ بجٹ میں حکومت سندھ نے کئی اہم اسکیمیں تجویز کی تھیں، ان میں سے صرف 5فیصد کو شامل کیا گیا۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ آنے والا بجٹ سندھ کے لئے کیا کیا مشکلات لے کر آئے گا۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر اکنامسٹ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس امر کی تو تصدیق کی کہ وفاق این ایف سی میں صوبوں کا حصّہ پوری طرح نہیں دے رہا لیکن سندھ کا اصل مسئلہ خراب حکمرانی ہے۔ دیہی علاقوں میں غربت بڑھ رہی ہے۔ شہروں میں کچی آبادیوں اور غیر قانونی بستیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
سندھ اور وفاق کے درمیان تازہ ترین تنازع تین بڑے اسپتالوں کا انتظام وفاقی حکومت کے سنبھالنے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ اگر چہ سپریم کورٹ کے حکم پر ہوا ہے لیکن یہ آئین کی 18ویں ترمیم میں صحت صوبوں کے حوالے کرنے کے اصول سے متصادم ہے۔ وفاق اور صوبے کی کشمکش میں پریشانی کا سامنا مریضوں کو ہے۔ میں سندھو ندی کے پانی سے سیراب ہونے والوں میں سے ہوں۔ مجھے یہ خلش رہتی ہے کہ سندھ نے مجھے جو کچھ دیا ہے میں اس کا عشر عشیر بھی سندھ کو نہیں دے سکا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سندھ مسلسل قربانیاں دیتا آرہا ہے۔ لاکھوں مہاجرین کا استقبال انہوں نے انصار بن کر کیا۔ پھر آمریتوں کے دَور میں جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریکیں سب سے موثر اور تادیر سندھ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں چلی ہیں لیکن جمہوریت کے پھل وڈیروں، سرمایہ داروں اور مافیا نے کھائے۔
شہری اور دیہی سندھ میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ شہری سندھ کی موثر نمائندہ ایم کیو ایم منتشر ہوگئی ہے۔ کراچی اور حیدر آباد متبادل قیادت کو ترس رہے ہیں۔ پی پی پی کے لئے موقع تھا کہ وہ اس خلا کو پُر کرتی۔ کراچی اور حیدر آباد میں پارٹی تنظیم کے عہدیداروں کو اختیار دیتی کہ وہ لوگوں کے دل جیتیں۔ اساتذہ، نرسیں اور دیگر احتجاج کرتے ہیں۔ پہلے تو ایم کیو ایم کے رہنما داد رسی کو آجاتے تھے، اب پی پی پی کے مقامی لیڈروں کو پہنچنا چاہئے لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتے۔
کراچی سندھ کا دارُالحکومت ہے۔ ملک کا سب سے بڑا تجارتی صنعتی مرکز، نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے دَور میں یہ جتنا خوبصورت ہوا تھا اب اتنا ہی بد صورت ہے۔ حکومت سندھ اسے مثالی شہر کیوں نہیں بناتی۔ سندھ اور وفاق کے درمیان جو بھی تنازعات ہیں اگر شہری اور دیہی سندھ والے مل کر اس کے لئے آواز بلند کریں تو ان کے حل کی امید زیادہ ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ صوبے کے ماہرین معیشت، تعلیم، انجینئرنگ، صنعتکاروں سے لسانی تعلق سے بالاتر ہوکر ملیں۔ اُردو اور سندھی بولنے والے مل کر بیٹھیں۔ تجاویز دیں۔ ان سب کے نمائندہ بن کر جب وزیراعلیٰ، وزیراعظم سے بات کریں گے تو ان کے پاس ان مطالبات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
وزیراعظم کو جیسے پورے پاکستان اور سب صوبوں کا وزیراعظم ہونا چاہئے، اسی طرح وزیراعلیٰ سندھ کو بھی سندھ میں سب رہنے والوں کا وزیراعلیٰ ہونا چاہئے۔