تحریر: راجا پرویز اقبال
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی پریس کانفرنس کے بعد سابق گورنر اور پیپلز پارٹی کے راہنما سردار لطیف کھوسہ نے قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا کہ اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پیروی کی اور پارٹی کے مشیران قانون سے کہا ہے کہ وہ نوٹس تیار کر کے بھیجیں، یہ سب چودھری نثار کی طرف سے ایان علی اور بلاول بھٹو کے ایک ہی اکاؤنٹ سے ٹکٹ خریدے جانے اور دوسرے الزامات کے حوالے سے ہے، سردار لطیف کھوسہ نے تو چیلنج کر دیا تھا کہ وہ ایان علی کے مقدمہ میں فیس لے کر پیش ہوتے ہیں اور وہ ثبوت بھی دے سکتے ہیں، پیپلز پارٹی والوں نے الٹا سوال پوچھ لیا کہ جس اکاؤنٹ کا ذکر کیا گیا اس کا نام بتایا جائے۔
ملک ان دنوں جن حالات سے گزر رہا ہے، ان میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے لیکن یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ ایسا شاید ممکن نہیں کہ سیاسی محاذ آرائی کئی پہلوؤں سے جاری ہے، عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سڑکوں پر ہیں اور ساتھ ہی آئینی اور قانونی لڑائی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں کہ پہلے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کر دیئے گئے اب خیال آیا کہ کچھ الٹی تدبیر ہوگئی چنانچہ جب مسلم لیگ (ن) کی طرف سے عمران خان کے خلاف ریفرنس سپیکر کے پاس دائر کیا گیا تو ان کو بھی خیال آگیا اور اب ریفرنس نئے سرے سے سپیکر کے پاس دائر کیا گیا۔
پیپلز پارٹی پہلے ہی ایسا کر چکی ہے، اب بال سپیکر کی کورٹ میں ہے جو سماعت کا اختیار تو رکھتے ہیں تاہم ان پر وقت کی کوئی قدغن نہیں اور ان کا کام ریفرنس کو مسترد کرنا یا الیکشن کمیشن کو روانہ کرنا ہے اگرچہ ریفرنس دائر کرنے والے وکلاء کا اصرار ہے کہ اس حوالے سے سپیکر کو ایک پوسٹ آفس کا کردار ادا کرنا ہے کہ وہ یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو سماعت کے لئے بھیج دیں سپیکر ایاز صادق کو اب باقاعدہ غور کرنا ہے اور وہ عمران خان اور وزیر اعظم کے خلاف دائر ریفرنسوں کی سماعت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے ان کو کوئی جلدی نہیں کہ وقت متعین نہیں ہے۔
اس عرصہ میں ان کی کوشش ہے کہ ٹی۔او۔آر پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہو جائے جو کوئی فیصلہ کرے، اگرچہ شاہ محمود قریشی ایسی میٹنگ میں جانے سے گریز کی بات کر چکے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
سیاسی منظر نامہ جو نظر آرہا ہے وہ دلچسپ بھی ہے کہ پہلے خورشید شاہ کہتے اور کہہ رہے ہیں اور اب مولا بخش چانڈیو نے بھی کہہ دیا کہ پیپلز پارٹی کسی ایسے عمل میں حصہ نہیں لے گی جس سے جمہوریت ڈی ریل ہو، شاید اسی فلسفے کی وجہ سے قانونی کارروائی کی راہ اپنائی گئی ہے اور ساتھ ہی سید خورشید شاہ کہتے ہیں کہ چودھری نثار”کام بگاڑو” ہیں۔
جبکہ چودھری نثار کے مطابق وہ اب عوام کے سامنے کیس پیش کریں گے اور ایک کے بعد دوسری پریس کانفرنس کرتے چلے جائیں گے وہ وفاقی وزیر اور قومی اسمبلی کے رکن ہیں، ان کو بات ایوان میں کرنا چاہیے جہاں اپوزیشن بھی ہوتی ہے کہ وہ جواب دے سکیں، لیکن جو انداز انہوں نے اپنایا یہ تو چٹھی والا ہے کہ خط لکھا اور جواب لیا،میڈیا والوں کو موقع دیا کہ وہ دوسروں کوبھی سنتے اور چلاتے رہیں۔
ان حالات میں ہر شے گڈ مڈ ہوتی چلی جارہی ہے، حکمرانوں کو یہ یقین ہو چکا کہ عوام کسی بڑی تحریک کے لئے تیار نہیں اور حالات اب ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں حتیٰ کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع یا ان کی جگہ نیا چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنا ، خیال ہے کہ وزیر اعظم اب اپنی صوابدید اس طرح استعمال کریں گے کہ سنیارٹی متاثر نہ ہو اور جنرل راحیل شرف بھی اکاموڈیٹ ہوں ان کے لئے چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا آفس یا عہدہ موجود ہے، بہر حال فیصلے کے دن قریب آ رہے ہیں۔ایسے میں اگر عمران خان اتفاق سے یا جان بوجھ کر ڈاکٹر طاہر القادری جیسی زبان بول رہے ہیں تو تعجب کیسا کہ دونوں حضرات اپنا ایک جیسا مقصد بیان کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے تو نئی بات کہہ دی کہ ان کو کسی سفارت کار نے کہا ہے کہ قصاص کا مطالبہ چھوڑ دیں، ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں وقت آنے پر وہ نام بھی بتا سکتے ہیں، دوسری طرف پیپلز پارٹی نے وضاحت مانگی ہے کہ بلاول اور ایان کا ٹکٹ جس اکاؤنٹ سے جاتا ہے اس اکاؤنٹ ہولڈر کا نام کیوں نہیں بتاتے؟ چنانچہ دلچسپ سیاسی کشمکش اور چپقلش شروع ہوگئی ہے۔
ان حالات میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے ڈائیلاگ کی بات کی اور کہا ہے کہ مسائل مذاکرات سے حل ہوتے ہیں، یہ بات درست بھی ہے لیکن ان کو مذاکرات کرنے سے روکا کس نے ہے وہ مداخلت کر کے خود مذاکرات کریں کہ یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھے تو سہی، اگر وزیر اعظم نے ایسا نہ کیا تو خلفشار بڑھے گا۔
تحریر: راجا پرویز اقبال