عزت مآب صدر برادر جمہوریہ انڈونیشیا، جناب جاکو ویدودو! اور ساتھی اراکین پارلیمنٹسے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے خطاب کیا ۔ مجلس شوریٰ، پارلیمنٹ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف سے ،فضیلت مآب جناب جاکو ویدودو، جمہوریہ انڈونیشیا کے جمہوری طور پر منتخب ساتویں صدر کا خیرمقدم کرنا میرے لیے منفرد مسرت و انبساط کا باعث ہے۔
فضیلت مآب! آپ کا دورہ اور اس پارلیمنٹ سے آپ کا خطاب ہمارے لیے انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹر احمد سوئیکارنو، انڈونیشیا کے پہلے صدر نے ۲۶؍جون،۱۹۶۳ء کو قومی اسمبلی پاکستان سے خطاب فرمایا تھا۔ اور اب پچپن سال بعد۔۔۔ یہ ایوان دنیا کے سب سے بڑی مسلمان آبادی والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب صدر کی اپنے مابین موجودگی پر شاداں و فرحاں ہے۔ ۲۰ کروڑ عوام کے نمائندہ کی حیثیت سے یہ پارلیمنٹ آپ کی موجودگی پر فخر کرتی ہے۔
فضیلت مآب! ہماری دونوں اقوام گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ ہمارے برادرانہ تعلقات دونوں ممالک کے معرض وجود میں آنے سے قبل بھی موجود تھے کیونکہ ہم اپنی اپنی جدوجہد آزادی کے دوران بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
؍اگست۱۷ ،،۱۹۴۵ء کو، جب انڈونیشیا کے بابائے قوم، ڈاکٹر احمد سوئیکارنو نے ولندیزیوں سے اپنی قوم کی آزادی کا اعلان کیا، تو قائد اعظم محمد علی جناح ، جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے،نے مشرق بعید میں تعینات برطانوی استعماری فوج کے مسلمان فوجیوں سے درخواست کی کہ وہ ولندیزی استعماری جارحیت کے خلاف اپنے انڈونیشیائی بھائیوں کا ساتھ دیں۔
یہ ہمارے دوممالک کا درخشاں باب رہا ہے کہ برصغیر پاک و ہندسے تقریباً ۶۰۰ مسلمان فوجیوں نے انڈونیشیائی جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ جن میں سے ۵۰۰ نے جام شہادت نوش کیا۔ یہ ۶۰۰ خوش نصیب اشخاص ہم دونوں اقوام کے مشترکہ ہیروز ہیں اور ہم مشترکہ طور پر انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی انڈونیشیائی جدوجہد آزادی کے ساتھ ذاتی وابستگی اس حقیقت سے مزید عیاں ہوتی ہے کہ انہوں نے کراچی کے ہوائی اڈہ پر ولندیزی طیاروں کو روکنے کا حکم دیا، جو جکارتہ میں اپنی فوج کے لئے سازوسامان لے جارہے تھے۔
پاکستان کو اس حقیقت پر فخر ہے کہ جب ۱۹۹۵ء میں انڈونیشیا نے اپنی گولڈن جوبلی منائی، تو اس نے اپنے پاکستانی ساتھیوں کو نہیں بھولا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’ادی۔پورا‘‘ سے نوازا۔
جناب صدر! انڈونیشیائی بھائیوں اور بہنوں نے اپنی طرف سے کبھی بھی بحران کی گھڑیوں میں پاکستان کوتنہا نہیں چھوڑا۔۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے ہمارا شانہ بشانہ ساتھ دیا اور اس نازک وقت میں انڈونیشیا کے پاس جو بھی فوجی وسائل دستیاب تھے وہ ہمارے حوالے کرنے میں ایک لمحے کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔
یہ اظہر من الشمس ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی جنوبی ایشیاء میں ۱۹۴۸ء، ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء اور بعد ازاں کے تنازعات کا بنیادی سبب رہا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن کے لئے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اس حل طلب مسئلہ کا منصفانہ اور پُرامن حل درکار ہے۔
پاکستان امید کرتا ہے کہ انڈونیشیا جیسے دوست ممالک اس ضمن میں پاکستان کی مدد کر تے رہیں گے۔
عزت مآب! ہمارے دونوں عوام کے تاریخی تعاون میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنوع واقع ہوا ہے جس سے ہماری دونوں ممالک کی حکومتوں کو تمام شعبوں میں تعاون کا ایک مضبوط نظام وضع کرنے میں مدد ملی ہے۔
اقوام متحدہ، او آئی سی، بین الپارلیمانی یونین، او آئی سی رکن ریاستوں کی پارلیمانی یونین اور دیگر بین الاقوامی اور علاقائی فورموں کے اراکین کی حیثیت سے ہم مشترکہ تشویش اور مفادات کے معاملات پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
ہمارے دونوں ممالک کی پارلیمنٹس بھی باہمی مفاد کے حامل تعاون کے شعبہ جات میں مسلسل کام کرتی رہی ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی خوشی ہے کہ ہمارے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں پاک۔انڈونیشیا دوستی گروپ تشکیل دیئے گئے ہیں جن میں اس وقت ایوان میں حاضر تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی ہے۔
جناب صدر! حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے عوام کے مابین رابطوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے دونوں طرف اعلیٰ تعلیمی، ثقافتی تبادلوں، دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقعوں میں تعاون کی نئی راہیں کھلی ہیں۔ تاہم، ہماری مشترکہ بہتری کے لئے ان اہم شعبوں میں توسیع کاابھی مزید امکان موجود ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کی انتظامی قیادت اس راہ پر گامزن ہے، ہمیں بھی ہماری دوستی کا دائرہ وسیع کرنے کے لئے پارلیمانی سفارتکاری کے کلیہ کو بروئے کار لانا چاہیے۔ دونوں ممالک کی پارلیمان نمو پذیر اور پائیدار شراکت داری کے حصول کے لئے مشترکہ طور پر کام کر کے ایک بامعنی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
جناب صدر! جس ایوان سے آپ کچھ ہی دیر میں خطاب کرنے والے ہیں، وہ لوگوں کی خواہشات و امیدوں کا حقیقی مظہر ہے۔ اپنے مباحثوں اور قانون سازی کے ذریعے اس نے موجودہ پاکستان کے مسائل کے قابل عمل حل کے لئے جدوجہد کی ہے۔ اس سلسلے میں، عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ ہمارا بہت بڑا چیلنج رہا ہے جس میں پاکستان نے پینسٹھ ہزار جانوں کے نذرانے اور اپنی معیشت کے ایک سو بیس ارب امریکی ڈالرزکے نقصان کے ساتھ، بھاری قیمت ادا کی ہے۔ درحقیقت، ہماری دو قومیں، دو سب سے بڑے مسلم ممالک ایک ہی جیسی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہیں، چاہے وہ ۲۰۰۲ء کے بالی بم دھماکے ہوں یا ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۶ء کے جکارتہ حملے یا پھرپشاور میں ۲۰۱۶ء میں آرمی پبلک سکول پر بھیانک حملہ ہو۔ دہشتگردی اور انتہاپسندی ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔
آپ حقیقی معنوں میں ایک مصلح اور بصیرت رکھنے والے صدر کے طور پر جانے جاتے ہیں جو عوام کا نبض شناس ہے۔مجھے آپ کا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جوآپ نے کسی نیوز چینل کو دیاتھااور یہاں میں آپ ہی کے الفاظ دہراتا ہوں: ’’ انڈونیشیا میں اسلام رواداری کا اسلام ہے؛ انڈونیشیا میں اسلام اعتدال پسند ہے اور ہم اس پر مسلسل عمل درآمد کر رہے ہیں۔ جو ہمارا امتیاز ہے انڈونیشیا میں ہماری کثرتیت کا سلسلہ جاری رہے گا۔یہ کہ ہمارے
عوام متحد ہیں، یہ کہ ہمارا ملک مسلسل ترقی کی راہ اور بہتری پر گامزن رہے گاتاکہ ہم بہتر سے بہتر منزل حاصل
کر سکیں۔‘‘
یہ وہ دانائی ہے جس کی تمام عالم اسلام کو چیلنجز سے باہر نکلنے کے لئے ضرورت ہے اوریہی وہ فراست اور زیرکی ہے جس کے حصول کی تمنا پورا ایوان آپ سے رکھتا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ، جناب صدر، میں ایک بار پھر تہہ دل سے آپ کی پاکستان آمد پر شکرگزار ہوں اور ہماری پارلیمنٹ میں آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔