counter easy hit

معروف میڈیا گروپ کی خصوصی رپورٹ

Special Report of the leading media group
لاہور (ویب ڈیسک ) کم عمری کی شادی ایک عالمی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے۔ قاہرہ کی الازہر یونیورسٹی کی طرف سے اس حوالے سے ایک فتویٰ بھی جاری کیا گیا لیکن مسلم دنیا اس معاملے پر متفق نہیں ہو سکی۔ کم عمری میں بچوں کی شادی کا مسئلہ ایک مرتبہ پھر اس وقت پاکستان میں خبروں کی سُرخی بنا۔ایک بڑے میڈیا گروپ ڈؤچیز ویلی کی ایک رپورٹ کے مطابق جب ایوان زیریں نے شادی کی عمر سولہ سے بڑھا کر اٹھارہ برس کرنے کی تجویز پرگرما گرم بحث کی اور یہ معاملہ التوا میں پڑ گیا۔ پاکستان میں مذہبی جماعتوں کی اپوزیشن کے باوجود سینٹ نے یہ مجوزہ قانون پاس کر دیا تھا۔ جسے بعد ازاں ایوان زیریں بحث کے لیے بھیجا گیا تھا۔ایوان زیریں میں اس مجوزہ بل کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی طرف سے بھی شدید اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا۔سینٹ میں اس بل کو پیش کرنے والی شیری رحمان تھیں۔جنہوں نے بعد ازاں اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایوان زیریں میں اس مون کا التوا میں چلے جانا ایک افسوس ناک امر ہے۔ پاکستان کے ایوان زیریں میں یہ مجوزہ قانون حکمران پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو رکن رامیش کمار نے پیش کیا تھا۔ایوان زیریں میں انہی کی پارٹی کے کئی ممبران نے اس مجوزہ بل کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس مجوزہ قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجا جائے تاکہ وہ پرکھ سکے کہ آیا یہ اسلام کے مطابق ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے کچھ اراکین نے البتہ اس مجوزہ بل کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ان میں وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چوہدری اور وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سرفہرست ہیں۔فواد چوہدری نے کہا کہ اس کی مخالفت خوفزدہ‘ کرنے کے مترادف ہے جبکہ شیریں مزاری نے کہا کہ اگر الازہر یونیورسٹی اس بارے میں فتویٰ جاری کر رہی ہے تو یہ غیر اسلامی کیسے ہو سکتا ہے؟پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں فعال سماجی کارکن ماریہ اقبال ترانہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ کم عمری کی شادی دراصل دوران زچگی ماؤں کی ہلاکت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بالخصوص دیہی علاقوں میں یہ معاملہ ہر دوسرے گھر کے لیے سنگین ہے کیونکہ وہاں صحت کی بنیادی سہولتیں مناسب نہیں ہیں ۔پاکستان کے معروف اینکر پرسن اور حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ مجوزہ قانون مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہے۔انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر کے مطابق اس مجوزہ بل کے خلاف حکمران پارٹی کے اندر ہی تقسیم دکھائی دیتی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اگر یہ قانون پاس ہو بھی جاتا ہے تو اس پر عملدرآمد ایک مشکل کام ہو گا۔انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ صوبہ سندھ میں یہ قانون ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس پر مؤثر طریقے سے عمل ہو رہا ہے؟جبران ناصر کے مطابق صرف قانون سازی ہے اس سنگین مسئلے کا حل نہیں بلکہ ان سماجی و اقتصادی وجوہات کا سدباب یقینی بنانا ہو گا،جن کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کی شادی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔دوسری طرف شیریں رحمان کا اصرار ہے کہ قانون سازی پہلا قدم ہو گا۔انہوں نے کہا پہلے اس قانون کو ایوان زیریں سے منظور کرانا ہو گا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website