سرینگر (ویب ڈیسک ) مقبوضہ کشمیر میں اس وقت صورتحال سخت کشیدہ ہے ، بی بی سی کے نمائندے نے وادی کا دورہ کیا اور اس کی منظر کشی کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سری نگر کسی بھی جنگی علاقے سے مختلف نظر نہیں آتا۔بی بی سی نمائندے کے مطابق دکانیں اور بازار بند ہیں، سکول اور کالج بھی بند ہیں۔ لوگوں نے اپنے گھروں میں راشن اور دیگر اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ تو کیا ہے لیکن اگر مزید کچھ دن دکانیں نہ کھلیں تو شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔وادی میں ٹیلیفون لائنز، موبائل کنکشن اور انٹرنیٹ براڈ بینڈ کی سہولیات بند کر دی گئی ہیں۔نمائندے کے مطابق پوری وادی انڈین سکیورٹی فورسز کے سخت حصار میں ہے ۔ہر طرف خار دار تار لگے ہیں اور پولیس موجود ہے ، جہاں میں تھا وہاں سے بارہ مولا کا راستہ ایک گھنٹے کا ہے مگر اس سفر کے دوران ہمیں دس سے بارہ مرتبہ روکا گیا ،ہمارے شناختی کارڈ چیک کئے گئے اور پوچھ گچھ کی گئی کہ کہاں جارہے ہیں ۔ کیوں جارہے ہیں ، پھرجانے دیا گیا۔ وادی میں آمدورفت بند ہے سوائے چند ایک علاقوں کے جہا ں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تصاویر اور ویڈیو بنانے کی اجازت دی جاتی ہے ورنہ ایسا کرنا ممنوع ہے اور اس کی بالکل اجازت نہیں ہے ۔نمائندے نے بتایا کہ ایک مرتبہ میرا موبائل چیک کیا گیا اور اس میں موجود تصاویر ڈیلیٹ کردی گئیں ،کشمیر میں دفعہ 144نافذ ہے اور پولیس کی گاڑیوں سے لگاتار یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ شہر میں کرفیو نافذ ہے اور جہاں دو سے زائد لوگ نظر آئینگے ان کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ لوگوں کے اندر اس وقت غصہ بھرا ہوا ہے ۔بارہ مولہ میں ہم نے 20سے 25لوگوں سے بات کی ان میں غصہ تھا جو ہم پر نکل رہا تھا ۔اسی لیے سرینگر کسی بھی جنگی علاقے سے مختلف نظر نہیں آ رہا۔