counter easy hit

کپتان پر سیلیکٹڈ ہونے کا الزام لگانے والوں کے لیے خاص تحریر

Special writing for accused of being capped on captain

لاہور (ویب ڈیسک) گزشتہ ہفتے مریم بی بی (میری مراد مریم اول سے ہے، مریم دوم سے نہیں۔ مریم اورنگزیب دوسرے درجے کی مریم بی بی کہی جا سکتی ہیں جبکہ ”اصلی اور وڈی“ مریم بی بی، مریم نواز ہی ہیں جو سرکاری کاغذات اور عدالتوں کے ریکارڈز میں مریم صفدر کے نام سے جانی جاتی ہیں) پاک فوج کے اعلیٰ ریٹائرڈ افسر اور نامور کالم نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔کی پریس کانفرنس نے جب پیالی میں طوفان اٹھا دیا تھا تو لوگ اس پر سخت حیران ہوئے تھے کہ جس جج نے نوازشریف کو سزا دی تھی اور جس وجہ سے وہ آج پسِ دیوارِ زنداں ہیں اس نے تو بیرونی دباؤ میں آکر فیصلہ لکھا تھا وگرنہ ہمارے تین بار کے وزیراعظم نے نہ تو کوئی منی لانڈرنگ کی تھی اور نہ کسی العزیزیہ سٹیل مل کیس میں کسی ”ہینکی پینکی“ کا ارتکاب کیا تھا۔ مریم بی بی نے اس ویڈیو ٹیپ کے ذریعے جو حیرت انگیز انکشاف کیا تھا وہ حقیقتاً ناقابلِ یقین تھا۔ نون لیگ کی جو قیادت اس کانفرنس میں تشریف فرما تھی اس کے چہروں پر ایک ناگوار سی سنجیدگی طاری تھی۔ وہ سب حضرات خاموش بیٹھے تھے لیکن ان کی خموشی صاف گفتگو اور بے زبانی صاف زبان نظر آ رہی تھی۔ سارا بوجھ جج ارشد ملک پر آ رہا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ ارشد ملک پر کس ادارے کا دباؤ تھا۔ کیا اعلیٰ عدلیہ دباؤ ڈال رہی تھی، کیا فوج کی طرف سے کوئی دباؤ تھا یا کیا ناصر بٹ کی طرف سے دی جانی والی دھمکیاں اس فیصلے کا سبب تھیں؟ ارشد ملک نے ایک کیس میں نوازشریف کو صاف بری کر دیا تھا لیکن دوسرے میں صاف سزا سنا دی تھی اور سات سال کے لئے جیل بھیج دیا تھا۔ خود میں نے اس پریس کانفرنس کو سن اور دیکھ کر اپنے کالم میں لکھا تھا: ” لگتا ہے جج ارشد ملک کو استعفیٰ دینا پڑے گا اور اگر کیس ریمانڈ ہو گیا تو نوازشریف کو رہا کرنا پڑے گا“۔ میری آدھی بات تو اگلے روز پوری ہو گئی، ارشد ملک کو فارغ کر دیا گیا اور باقی آدھی زیرِ انتظار ہے۔ پھر حالات بڑی تیزی سے آگے بڑھنے لگے۔ ارشد ملک نے چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ملاقات کی، اپنی بِپتا بھی سنائی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسے بلیک میل کیا گیا تھا۔ اس وقت تک جج نے صرف یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ اس وڈیو کے مرکزی کردار ناصر بٹ سے ملتا رہا ہے، وہ اس کا دیرینہ دوست بھی ہے اور ”ہم مشرب“ بھی! لیکن جب میڈیا پر طرح طرح کے سوال اٹھنے لگے، عدالتِ عظمیٰ کو نوٹس لینے کی فریادیں کی جانے لگیں اور ارشد ملک کے خلاف ظالمانہ سوالات کی بوچھاڑ ہونے لگی تو موصوف نے ایک طویل بیان میں ایک نیا پنڈورہ باکس کھول دیا۔ میڈیا کے ناظرین و سامعین ابھی ایک وڈیو ٹیپ پر انگشت بدنداں تھے کہ ارشد ملک نے اپنے نئے بیان میں گویا نہ صرف اپنی خودکشی کا سامان فراہم کر دیا بلکہ نون لیگ کی ساری قیادت کو زیرِ خطر (Vulernable) کر ڈالا۔ قارئین اس ساری تفصیل سے آگاہ ہیں۔ سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بنچ 16 جولائی کو اس کیس کی سماعت شروع کر رہا ہے، وزیرِ قانون اور وزیراعظم کے خصوصی معاون شہزاد اکبر ایک طویل کانفرنس کر چکے ہیں، وہ وڈیو ٹیپ بھی منظر عام پر آ چکی ہیں اور جواب تک نہیں آئی تھیں۔ یہ سب مزید باہر آنے کے لئے بیتاب ہو رہی ہیں۔ جوں جوں وقت گزرے گا، پیاز کے چھلکوں کی تہیں اترتی جائیں گی اور اس کے اندر اگر کچھ ہوا تو ڈنٹھل کی شکل میں نظر آنے لگے گا…… میں صرف دو نکات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروائی چاہوں گا۔پہلا نکتہ یا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان آرمی کی طرف سے جج پر کوئی دباؤ تھا کہ اس کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے اور نوازشریف کے خلاف کیا جائے؟…… کیا اسی دباؤ کی وجہ سے ایک کیس میں نوازشریف کو بری کر دیا گیا اور دوسرے میں سات سال کی سزا دی گئی؟…… کیا جج نے اس محاوے کی پیروی کی کہ خدا بھی ناراض نہ ہو اور بھگوان بھی راضی رہے؟…… اپوزیشن تو گزشتہ ایک برس سے ببانگ دہل کہتی آئی ہے کہ اسے آرمی نے الیکشنوں میں شکست دلوائی۔ اگر آرمی عمران خان کے پیچھے کھڑی نہ ہوتی تو کس کی مجال تھی کہ دو روائتی خاندانوں کو میدے سے بال کی طرح کھینچ کر باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن راقم السطور کا استدلال ہے کہ آرمی کا جس طرح گزشتہ برس کے الیکشنوں میں کوئی لینا دینا نہیں تھا، اسی طرح نوازشریف کی سزا میں بھی آرمی کا کوئی رول نہ تھا۔ بات یہ ہے کہ آرمی کچا کھیل نہیں کھیلتی۔ اگر آج اپوزیشن بار بار یہ واویلا مچاتی ہے کہ عمران خان آیا نہیں لایا گیا ہے اور اسے بزعمِ خویش سچ بھی گردانتی ہے تو اسے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر آرمی اس کیس میں ملوث ہوتی اور ارشد ملک کو کسی قسم کی ڈکٹیشن دے رہی ہوتی تو کیا اسے معلوم نہ ہوتا کہ ارشد ملک ناصر بٹ یا ناصر جنجوعہ وغیرہ سے پے در پے ملاقاتیں کر رہا ہے؟…… کیا آرمی ان ملاقاتوں کی آڈیوٹیپ نہیں بنا سکتی تھی؟…… کیا ناصر بٹ یا نوازشریف اینڈ پارٹی کے پاس آرمی سے بہتر اور برتر سروے لینس کی سہولتیں موجود تھیں؟…… کیا آرمی ارشد ملک کو صرف بذریعہ فون یا بذریعہ قاصد یا بذریعہ تھرڈ پارٹی ہدایات جاری کر رہی تھی کہ نوازشریف کو اس کیس میں 7سال کے لئے اندر کر دو؟…… اگر آرمی ایسا کر رہی ہوتی تو یہ وڈیو ٹیپ جسے مریم بی بی نے اپنی پریس کانفرنس میں بے نقاب کیا یا مزید ٹیپس (Tapes)جن کی موجودگی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے بے نقاب کی جائیں گی تو یہ ٹیپس سب سے پہلے آرمی کے پاس آتیں۔ آرمی اگر ارشد ملک پر دباؤ ڈال رہی ہوتی تو جج کی نقل و حرکت کو باقاعدہ مانیٹر کیا جاتا۔ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2کی علاقائی جیورس ڈکشن کیا آئی ایس آئی کی جیورس ڈکشن سے باہر ہے؟ اگر آج ثناء اللہ کیس میں ”باڈی کیمروں“ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تو یہ ٹیکنالوجی اور یہ طریقہ ء نگہداری (سروے لینس) تو 1970ء کے عشرے سے پہلے بھی نہ صرف آئی ایس آئی کو معلوم تھا بلکہ اس کے زیرِ استعمال بھی تھا۔ جن لوگوں نے میری طرح آئی ایس آئی میں کچھ برس گزارے ہوں گے ان کو معلوم ہو گا کہ ”باڈی کیمروں“ کی ٹیکنالوجی تو بہت پرانی ہے اور آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ آج تو ایسے Lensesمارکیٹ میں مل رہے ہیں جو کسی ایجنٹ کی آنکھوں میں فِٹ (Fit) کر دیئے جاتے ہیں۔ ان میں وڈیو اور آڈیو دونوں سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ پانچ GBکا ایک نصب شدہ چِپ (Chip) آڈیو وڈیو ریکارڈنگ کرکے سارا کچا چھٹا آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔یہ ٹیکنالوجی امریکہ کی سلی کون ویلی میں جگہ جگہ بک رہی ہے۔اگر آرمی نے ارشد ملک کو بلیک میل کرنا ہوتا اور اس پر دباؤ ڈالنا ہوتا تو اس کی SOPs دوسری طرح کی ہوتیں۔ یہ نہ ہوتا کہ جج کو کہا جاتا کہ 10کروڑ لے لو، 2کروڑ یورو کار کی ڈگی میں موجود ہیں ان کو قابو کرو، 50کروڑ حاضر ہیں، ہم آپ کو مالا مال کر دیں گے وغیرہ وغیرہ…… یہ ایسی ”بچگانہ حرکات“ ہیں جو کسی طور بھی ان خفیہ آلات اور ٹیکٹکس کا مقابلہ نہیں کرتیں جو فوج کے پاس ہیں اور ان ”بالغانہ حرکات“ کے زمرے میں آتی ہیں جن پر صرف فوج کی اجارہ داری ہے۔ علاوہ ازیں ارشد ملک کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان کی ملاقات حسین نواز سے مکہ مکرمہ میں کروائی گئی اور پیش کش کی گئی کہ اگر آپ ہماری مدد کرو گے تو ہم آپ کے اہل و عیال کو امریکہ، برطانیہ یا کینڈا میں Settleکر دیں گے جہاں کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کر سکے گا!…… سوال یہ ہے کہ کیا آرمی کسی جج کو اس قسم کی پیشکش کر سکتی ہے؟…… سچ تو یہ ہے کہ بیرونِ ملک بھاگنے کا کلچر ایک سویلین سیاسی کلچر ہے جس سے آرمی کا کوئی تعلق نہیں۔ الطاف حسین، اسحاق ڈار، حسن نواز، حسین نواز، عمران اور سلمان شہباز آج کہاں ہیں؟…… ان کو کس نے لندن لے جا کر Settle کیا؟یہ سارے داؤ پیچ وہ نہیں جو آرمی کسی مجرم پر آزماتی اور استعمال کرتی ہے۔کوئی شخص اگر لاپتہ ہو جائے تو کہا جاتا ہے اسے فوج والوں نے اٹھوایا اور غائب کیا ہے۔ نجانے کتنے سینکڑوں ہزاروں ناپسندیدہ عناصر ”لاپتہ“ ہوئے اور آج بھی ہیں اور یہ ایک ایسا الزام ہے جو ایجنسیوں پر لگانے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا جاتا۔ لیکن سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا کسی معروف سیاسی شخصیت کو بھی کبھی فوج نے اٹھایا اور لاپتہ کیا؟ یہ جو آج ہر تیسرا اپوزیشن لیڈر ہر روز کسی نہ کسی چینل پر بیٹھ کر دھڑلے سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ عمران خان کو جو لوگ لے کے آئے ہیں وہی موجودہ اقتصادی بحران کے ذمہ دار ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے…… یہ کوئی نہیں بتاتا کہ گزشتہ دس برسوں میں اگر 24ہزار ارب کا خسارہ ملک کو ہوا تو اس کا ذمہ دار کون سا جنرل تھا؟ ارشد ملک نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اس کو 6اپریل کو جاتی امرا لے جایا گیا اور وہاں سابق وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کروائی گئی۔ جج نے وزیراعظم کو کہا کہ اس کو بلیک میل کیا گیا اور اسے یہ سات سالہ سزا اناؤنس کرنے پر مجبو رکیا گیا جسے سن کر نوازشریف نے ناگواری کا اظہار کیا۔ لیکن پھر نوازشریف کے ”دوستوں“ نے کہا کہ جج صاحب! اب بھی آپ نوازشریف کو ریلیف دے سکتے ہیں …… یہ ساری تفصیلات جو آج ملک کے بچے بچے کے نوٹس میں آ رہی ہیں،حیرت ہے کہ فوج کو ان کا کچھ علم نہیں تھا۔ گویا لاہور میں کوئی فوج نہیں تھی، گویا لاہور میں ISI کا کوئی دفتر نہیں تھا،گویا اسلام آباد میں ارشد ملک کی گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کا علم کسی ایجنسی کو نہیں تھا!…… بھائی لوگو اگر تھاتو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو فوج خود ارشد ملک پر دباؤ ڈال کر نوازشریف کو سزا دلوا رہی ہے اور دوسری طرف اتنی غافل، بدھو اور نالائق محض ہے کہ نہیں جانتی کہ جاتی امرا میں کون رہتا ہے اور نہ یہ جانتی ہے کہ نوازشریف 6اپریل کے دن وہاں اپنے گھر میں تھے یا نہیں تھے اور نہ فوج کو یہ معلوم تھا کہ ارشد ملک، نوازشریف سے ملاقات کے لئے اسلام آباد سے لاہور آیا ہوا ہے!!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website