counter easy hit

نامور سابق بیورو کریٹ کی خصوصی تحریر

Special written by the famous Bureau of Coret

لاہور (ویب ڈیسک) جب سے یہ ملک معرضِ وجود میں آیا ہے، سیاست کی بساط پر ایک ہی کھیل تسلسل اور تواتر کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ جوڑ توڑ اور گھوڑوں کی خرید و فر وخت اپنے اقتدار کو طوالت دینے اور استحکام بخشنے کے لیے حکومتِ وقت ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ نامور کالم نگار اور سابق بیورو کریٹ شوکت علی شاہ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس کے لیے انہیں کوئی خاص تگ و دو نہیں کرنا پڑتی۔ صرف خزانے کا منہ کھولنا ہوتا ہے۔ چونکہ پیسہ جیب سے نہیں جاتا ، اس لیے حاتم طائیانہ روش اختیار کرنے میں چنداں دشواری پیش نہیں آتی۔ گھوڑے کو تو گھاس چاہئے۔ وہ اس سے محبت نہیں کر سکتا، اسے بہرطور پیٹ کا ایندھن بنانا پڑتا ہے۔ ؎جہاں بکنے کو ہر ایک سے ایک آگے ہو،ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے۔ اس سلسلے میں کافی عرصہ پہلے میں نے ا یک لطیفہ نما واقعے کا ذکر کیا تھا جس کو قندِ مکرر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ سلطنت کے بے وقوف آدمیوں کی فہرست مرتب کر ے۔ اگلے روز جب فہرست پیش ہوئی تو سرفہرست ظل سُبحانی کا نام تھا۔ اس پر بادشاہ بڑا جز بز ہوا تم نے میرا نام کیسے لکھ دیا؟ شاہ کے لہجے میں غصے کے ساتھ حیرت بھی تھی۔ ’’حضور اگر جان کی امان پائوں تو کچھ عرض کروں‘‘ جب اُسے اذنِ اماں ملی تو بولا ، حضور ایک اجنبی ملک سے ایک اجنبی سوداگر آیا ،آپ نے ہزار گھوڑے خریدنے کی رقم اسے پیشگی دے دی ہے کہ اگلے سال وہ گھوڑے پیش کرے نہ تو آپ اس ملک کو جانتے ہیں نہ سوداگر کو! اب اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی۔ بالفرض وہ لے آیا تو؟ بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھا۔ ’’تو پھر عالم پناہ! میں آپ کا نام فہرست سے کاٹ کر اس کا لکھ دونگا۔ سو اس سے ثابت ہوا کہ گھوڑوں کی تجارت قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطی ٰ میں بھی ہوتی رہی ہے۔ اگر فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ اب سوداگر لاد گئے ہیں اور گھوڑوں نے اپنے بھائو خود لگانے شروع کر دئیے ہیں۔حسین شہید سہروری ایک شاطر سیاست دان تھے۔ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں سے حکومت کو زچ کرتے رہتے۔ آخر ایک د ن غلام محمد گورنر جنرل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے سہروردی کو بلا کر کرسی پر بٹھایا۔ کمرے کے دروازے بند کرا دئیے۔ بولا تم نے حکومت کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ شرانگیز تقریریں کرتے ہو۔ میں تمہیں تین چیزیں پیش کرتا ہوں۔ ایک نہ ایک قبول کر کے ہی تم اس کمرے سے باہر جا سکتے ہو۔ وزارت، سفارت یا جیل سہروردی نے گورنر جنرل کے چہرے کی طرف دیکھا۔ جس پر مزاح کی کوئی رمق تک نہ تھی۔ کمرے کی دیواروں کو گُھورا جو اسے سکڑتی ہوئی نظر آئیں۔ وزارت جیل سے تو بہرحال بہتر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کسی علمِ افلاطون کی ضرورت نہیں۔ممتاز دولتانہ اور مظفر علی قزلباش الیکشن ہار گئے لیکن بھٹو مرحوم کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ زخمی درندہ صحت مند سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اُن کا ملک میں رہنا حکومت کو سُکھ کا سانس نہ لینے دیناہے۔ چنانچہ انہیں برطانیہ اور فرانس کی سفارت پیش کر دی۔ اسی طرح جنرل گُل حسن اور ائیر مارشل رحیم کو بھی یک بینی دو گوش عہدوںسے ہٹا کر سفیر بنا د یا۔ سیاست کی اصطلاح میں اسے اشک شوئی بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے دوست ملک صاحب اسے گلو خلاصی کہتے ہیں۔جو کام سابقہ حکومتوں نے محدود پیمانے پر کیا تھا ،اسے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے تھوک کے حساب کرنا شروع کر دیا۔ پہلوں نے تو مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے صرف مراعات د یں۔ انہوں نے غلام ابن غلام ابن غلام کھڑے کرنے شروع کر دئیے۔ پہلے مخالفین کی صرف ہسٹری جانتے تھے۔ انہوں نے کیمسٹری بھی معلوم کر لی۔ یہ بڑے مہمان اداکار تھے۔ بادہ ظرف مدح خوار دیکھ کر بانٹتے۔ کس کو لفافہ دینا ہے! کس کی ’’منت ترلا‘‘ کرنا ہے۔ کس کو ’’گُھوری‘‘ ڈالنا ہے اور کس کو جوتے مروانے ہیں! قید کروانا ہے یا زندگی کی قید سے ہی آزاد کر د ینا ہے۔ ایک مشہور کرکٹر جسے گھوڑا بھی کہا جاتا تھا۔ شومئی قسمت سے ممبر صوبائی اسمبلی بن گیا۔ وہ حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ ایک دن چند غنڈوں نے اس کی نہر کے کنارے ٹھیک ٹھاک مزاج پُرسی کر ڈالی۔ چھ ماہ بعد جب وہ ہڈیاں جڑوا کر ہسپتال سے فارغ ہوا تو حُلیے کی حد تک فلاسفر بن چکا تھا۔ آبِ رواں کودُور سے ہی دیکھ لیتا تو لرزہ براندام ہو جاتا۔عام لوگوں نے تو صرف ایک گُلو بٹ کے کارنامے دیکھے ہیں۔ انہوں نے اس قسم کے مشٹنڈوں کی پوری پلٹن کھڑی کر رکھی تھی۔ مخالفین سے تو نبٹتے ہی تھے آپس میں بھی کئی بزم آرائیاں کیں۔ چھانگا مانگا تو ایک ٹریلر تھا۔ اصل سیاسی ’’پانی پت‘‘ اس وقت برپا ہوا جب بے نظیر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی۔ گھوڑوں کا بختِ خفتہ بیدار ہو گیا۔ ایک کروڑ آفر کرتا تو دوسرا د و کروڑ کی پیشکش کر دیتا۔ بعض خوش نصیبوں کے حصے میں چار کروڑ تک آئے۔ چارسُو ایک ہی صدا سُنائی دیتی؎نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز ! ۔۔ شیخوپورہ کے ڈی ۔ سی سنانے لگے۔ پیپلز پارٹی کا ایک گھوڑا بھگوڑا بننے کے لیے تیار ہو گیا ۔ میں اس کو لیکر مدارالمہام کے پاس گیا۔ بات چیت ہوئی۔ وعدے وعید ہوئے۔ کہنے لگے ، جب اسے بریف کیس پیش کیا گیا تو اس نے لپک کر اس طرح اُچکا جیسے شِکرا شکار پر جھپٹتا ہے۔ تکلفاً بھی یہ نہ کہا۔ ’’میاں صاحب رہن دیو‘‘! محترم نے عقلمندی یہ کی کہ گھوڑوں کو سوات کے ایک اصطبل میں بند کر دیا اور باہر پولیس کا پہرا بٹھا دیا۔ موبائیل فون ضبط کر لیے گئے ۔ ۔۔ ’’چل نی دھی اے راوی، نہ کوئی آوی ، نہ جاوی‘‘ ۔۔ حضرت میاں شہباز شریف نے پچھلی سے پچھلی حکومت ایک عدد حکم امتناعی اور ’ق‘ لیگ کے فارورڈ بلاک پر چلائی۔ پانچ سال کا طویل عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ کسی کو یہ پوچھنے کا یارا نہ تھا کہ حضرت یہ جمہوریت کی کونسی قسم ہے؟ کس طرح کی روایات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ طبیعت میں تنقض اس قدر ہے کہ آتے ہی سابقہ حکومت کے مقرر کردہ ہزاروں ملازمین کو بیک جُنبشِ قلم فارغ کر دیا۔ صحافیوں کی پوری فوج لیکر 7 کلب روڈ کے نئے دفتر پہنچے۔ کچھ یوں تاثر دیا جیسے چودھری پرویز الٰہی کی چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہو۔ اگر وہ بروقت چھاپہ نہ مارتے تو چودھری اس عمارت کو گجرات کے ’’نت ہائوس‘‘ منتقل کر دیتے۔ اسے فوری طور پر یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا۔ درسگاہ تو بوجوہ نہ بن سکی ۔ خادم اعلیٰ نے ’’باامر مجبوری‘‘ اسے اپنا دفتر بنا لیا۔ میں ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب سے زیادہ زیرک، شاطر اور عملیت پسند سیاست دان ا س وقت ملک میں نہیں ہے۔ یہ ہزار دام سے ایک جُنبش میں نکلنے کا ملکا رکھتے ہیں۔ اس دفعہ بھی کسی نہ کسی طور بچ جائیں گے! عمران خان کو ’ن‘ لیگ کے جو مرغانِ بادنما ملے ہیں ’انکی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں د یکھا جا سکتا ہے، صرف اس بات پر نہیں کہ وہ ملے کیوں ہیں، اپنی وفاداری کا یقین کیوں دلایا ہے۔ حیران کن بات صرف یہ ہے کہ آتے آتے اتنی دیر کیسے کر دی؟ اس کی بظاہر د و وجوہ ہو سکتی ہیں۔ خان کے پاس سبز گھاس کی کمی ہے۔ گھوڑا چراگاہ مانگتا ہے۔ محض چابک سے قابو نہیں آتا۔ پھر خان جس وکٹ پر کھیل رہا ہے اس میں آئوٹ نہیں ہو سکتا۔ میچ ہار بھی نہیں سکتا! کھیل میں ایمپائر کا جو رول ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چُھپی بات نہیں۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے ۔ (SEEING IS BELIEVING (عیاں راچہ بیان) مخالفین جتنا زور لگا لیں ، حکومت گرتی نظر نہیں آتی…البتہ موجودہ حکومت کو ایک بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی کو پر لگ گئے ہیں۔ لوگوں کی قوتِ خرید دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بھوک بلک کر گھر سے باہر نکل آئے۔ اس صورت میں کیا ہو گا؟ انگریزی زبان کے شاعر کالرج کی زبان میں: (A THING TO DREAM AND NOT TO TELL) ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website