counter easy hit

شاہان مغلیہ کا طلسماتی اور رومانی فن تعمیر

شاہان مغلیہ نےجہاں اپنے بے پناہ فہم و فراست اور تدبر سے جنوبی ایشیا کی بکھری ریاستوں اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو تقریباً تین صدیوں تک ایک لڑی میں پروئے رکھا اور ایک عظیم الشان تہذیب وتمدن کی بنیاد ڈالی وہیں دنیا کو ایک انوکھے اور دلکش رنگ ڈھنگ سے روشناس کروایا۔

مغل اعظم کا نام زمانے بھر میں شان و شوکت حشمت و جبروت کی علامت بن گیا۔ ہر طرف اسی کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔ دنیا بھر کے بادشاہوں کے سفیر جب کئی ماہ کے انتظار کے بعد مغل شہنشاہ کے سامنے پیش ہوتے تو کروفر کے سامنے وہ ششدر رہ جاتے۔

پہلے چھ شہنشاہ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے شہنشاہ بابر سے شہنشاہ اورنگ زیب تک تقریباً پونے دو سو سال تک برصغیر نے ناقابل یقین حد تک ترقی کی اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔زبان و ادب ہو فن تعمیرات ہو غرض تہذیب وتمدن کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہا۔

اردو زبان بھی تو شاہان مغلیہ کا ہی تحفہ ہے۔برصغیر کے چپے چپے پر شاہان مغلیہ کے طلسماتی اور رومانی فن تعمیر کے نشانات موجود ہیں۔تاج محل تو ان میں سے صرف ایک ہے جس کو عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے جس کو کبھی پتھر میں غزل کہا جاتا ہے تو کبھی ابدیت کے رخسار کا لافانی آنسو۔

ایک فرانسیسی دانشور پیرلوتی نے 1900 میں ہندوستان کا دورہ کیا اور ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا”ہندوستان انگریزوں کے بغیر” ۔لوتی کو اس کی ادبی خدمات کی بنا پر اکیڈیمی آف فرانس کی رکنیت دی گئی جو فرانس کے دانشوروں کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہے۔

وہ مغل فن تعمیر اور ثقافت کے بارے میں لکھتا ہے۔جدید مغربی آرٹ کم و بیش اس حسن کاری اور آرائش کے فن کی نقل ہے جو سترھویں صدی میں ہندوستان میں پروان چڑھا۔ مغل تہذیب و تمدن کے بارے میں فرانس کی اکادمی کے ممتاز رکن کی یہ رائے بہت اہم ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مغرب نے مشرق سے جو کچھ سیکھا اسے مغربی دانشور ابھی بھولے نہیں۔

ایک اور جگہ لوتی مغلوں کی عظمت کے اعتراف میں لکھتا ہے “عظیم مغل شہنشاہ جن کی عظمت داستان پارینہ بن گئی ان شاہان مغلیہ نے یہ عمارات بنوائیں جو اس عظیم الشان مملکت کے فرماں روا تھے جس کی مثال تاریخ عالم میں شاید ہی کہیں ملے”

تاج محل کو وہ دنیا کے عجائبات میں قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے “تاج جسے ساری دنیا نے دیکھا ہے اور اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہےکہ تاج عجائبات میں اے ہے. فرگوسن مغل فن تعمیر کا شیدائی ہے اور اسے دنیا کا بہترین تہذیبی سرمایہ قرار دیتا ہے۔

افسوس آج کے نام نہاد دانشور اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں انگریز اور ہندو مورخین کی پروپیگنڈے پر مبنی کتابیں پڑھ کر تحقیق کئے بغیر نئی نسل کو بھی اپنے اسلاف کے عظمتوں سے دور کر رہے ہیں.ایسے نام نہاد دانشوروں کو تو احساس زیاں جاتا رہا ہےکیونکہ غیرت اور حمیت ان کے یہاں سے رخصت ہو چکی ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website