تحریر: انیلہ احمد
وہ بڑا اچھا وقت تھا جب لوگ بھی سادہ اور انکی زندگی بھی سادگی اور کفايت شعاری والی تھی نمودونمائش نام کی کوئی چيز نہيں تھی گھر کے تمام خرچے بھی پورے ھوتے دعوتيں اس دور ميں بھی ھوتيں تقريبات ميں مختلف اقسام کے کھانے بھی پکاۓ جاتے خواتين خود ہی گھروں ميں نت نۓ ڈيزائن کے لباس بناتيں زندگی نہايت خوبصورت طريقے سے گزر رہی تھی ليکن ايسا اچانک کيا ھوا زمانے نے اپنا رنگ روپ ہی بدل ديا سادگی کی جگہ خود نمائی نے لے لی ۔ ہر جگہ روپے پيسے کا تزگرہ ۔وہی معزز جانا جانے لگا جو ذيادہ روپيہ خرچ کرے۔
نظر دورائيں آج فضول خرچی ہماری زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ھے آج ہر شخص خواہ وہ مرد ھو يا عورت اس نفسياتی دباؤ کا شکار نظر آتا ھے کہ اسے بھی دنيا کے ساتھ چلنا ھے چاہے اس کے پاس سہولت ميسر ھے يا نہيں ۔۔۔ليکن تہيہ يہی کر رکھا ھے سب کی طرح دکھنا ھے اسی ليۓ ھم جھوٹے نمائشی رويۓ اپناتے جارہے ہيں اور پيسے کا بے جا ضياع ہمارا status symbol : بن چکا ھے اس ليۓ يہ فيصلہ کرنا مشکل امر ھے ۔کہ فضول خرچ ھونے ميں مرد آگے ھے يا عورت ۔۔ کہا تو يہی جاتا ھے کہ عورت آگے ھے کيونکہ خود نمائي کی عادت عورت ميں ذيادہ ھوتی ھے خاندان ميں يا احباب ميں کوئی تقريب يا شادی آجاۓ تو گھر کا بجٹ درہم برہم ھو جاتا ھے اور خاتون خانہ کے مطالبات زور پکڑنا شروع ھو جاتے ہيں۔۔
بيچارہ شوہر فضول خرچيوں پر سر پکڑ کے بيٹھ جاتا ھے اپنی بيوی کے بے جا مطالبات کو افورڈ کرنا اس کے ليۓ جوۓ شير لانے کے برابر ھوتا ھے ۔۔اپنی بيوی کی کارستانياں کو بڑھا چڑھا کے وہ خاندان ميں سناتا ھے کہ کس طرح ميری خون پسينے کی کمائی وہ اپنے خاندان والوں پہ لٹا رہی ھے کبھی شادی کی صورت ميں ۔کبھی پارٹی کی ۔ اس ليۓ اسے سب سے بڑی فضول خرچ کا خطاب سے نوازہ گيا ۔ ليکن ديکھا گيا ھے مرد بھی اس ميدان ميں پيچھے نہيں ۔ کيونکہ کئی جگہ مرد بھی بڑے فضول خرچ واقع ھوۓ ہيں ۔
کبھی کبھار سہی ۔۔ ليکن فائيو سٹار ھوٹل ميں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈنر ان کا پسنديدہ مشغلہ ھوتا ھے جو بے جا اسراف کا سبب ھے خودنمائي کی جھلک واضع پائی جاتی ھے بيويوں کی حواہشات کا احترام کرتے وہ اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہيں ۔ ھمارے معاشرے ميں خواہ وہ مرد ھوں يا عورت ۔۔ ايسے لوگ احساس کمتری کا شکار ہيں ہر کسی کی کوشش ھوتی ھے کوئی اسے نا پسنديدہ قرار نہ دے دے ۔ حتی الامکان خود کو دوسروں کی تنقيد سے ۔۔مخفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہيں يہی کوشش ہمارے معاشرے ميں سرماۓ کے بے جا ضياء کا سبب بن رہے ہيں ھم ذيادہ سے ذيادہ دکھاوہ اور نمائشی بنتے جا رہے ہيں ۔۔۔
دوسری اھم بات ۔۔ احساس برتری سے پروان چڑھنے والے لوگ اول الزکر طبقہ سے قطعی متضاد رويہ رکھتے ہيں ان ميں خود نمائی کی عادت عروج پہ ھوتی ھے ايسے لوگ خواہ مرد ھوں يا عورت ايک دوسرے کو نيچا دکھانے کے چکر ميں اپنی دولت کی نمائش ميں تن من دھن لگا ديتے ہيں يہ فضول خرچی کا رويہ ايک نفسياتی رويہ ھے اسی وجہ سے ھماری مذہبی ۔ روحانی ۔ اور معاشرتی اقتدار زوال کا شکار ہيں انہيں بے رخی اور سنگدلی سے کچلا جا رہا ھے اور وہ اقدار پامال کی جا رہی ہيں جن پہ صديوں سے دين مذہب۔ مساوات انسانی ۔سادگی ۔ کفايت شعاری کی بنياديں کھڑی ہيں ۔ اسے ھم نے مل کے اسلامی اصولوں کے مطابق چلانا ھے اور اپنے وسائل کو محدود کرکے اپنی ضرورت کے تحت استعمال کرنا ھے۔۔
تحریر: انیلہ احمد