دمشق( نیوز ڈیسک) جنگ زدہ، ناخواندہ اور غریب ممالک میں یہ چلن عام ہے کہ عوام ننگ، بھوک اور افلاس کا شکار ہوتی ہے لیکن حکمران اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس موجود دولت کا شمار بھی ممکن نہیں ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ شاید انہیں اپنی دولت خرچ کرنے کا راستہ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔جا بجا ایسے مظاہر سامنے آتے ہیں کہ سرکاری ملازمین جب ذاتی تقاریب میں نمود و نمائش کا مظاہرہ کرتے ہیں تو دیکھنے والی آنکھیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ خانہ جنگی کا شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے ایک نئے شادہ شدہ جوڑے کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پہ دیکھا، لکھا اور پڑھا جارہا ہے۔اور یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ دو سرکاری ملازمین نے اپنے بیٹا اور بیٹی کی شادی میں لاکھوں ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے حالانکہ شام میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ مروج قانون کے تحت 100 اور 150 ڈالرز کے درمیان ہوتی ہے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پرشام کے صدر بشارالاسد کے وزیر اور سفیرکے بیٹے و بیٹی کی شادی موضوع بحث بنی ہوئی ہے کیونکہ اس شادی پرمحتاط اندازے کے مطابق 20 لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے جو مقامی کرنسی میں تقریبا ایک ارب اور 30 کروڑ شامی لیرہ کے مساوی بنتی ہے۔عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق صدارتی امور کے وزیر منصور عزام کی بیٹی سالی عزام کی شادی زین العابدین کے ساتھ ہوئی ہے جن کے والد بھارت میں شام کے سفیر ریاض عباس ہیں، ریاض عباس بھی بشارالاسد کے انتہائی قریب اورمعتمد تصور کیے جاتے ہیں۔مؤقر عربی خبررساں ادارے ’السویدا 24‘ کے مطابق شادی کی تقریب دمشق کے تفریحی مقام یعفور میں ہوئی جس میں دلہن نے ایک لاکھ ڈالرز مالیت کا عروسی جوڑا زیب تن کیا تھا اور اسے لبنان کے مشہور ڈیزائنر زہیر مراد نے بطور خاص تیار کیا تھا۔شادی کی تقریب کو یادگار اور بھرپور بنانے کے لیے چھ فنکاروں کے علاوہ رقاصاؤں کو مدعو کیا گیا تھا جب کہ روسی ثقافتی طائفے نے بھی اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ طعام اور مشروبات کا انتظام لبنان کے مہنگے ترین ریستورانوں سے کیا گیا تھا۔ معزز مہمانان کی تواضع کے لیے 20 سے زائد اقسام کے کیوبن سگار اور درآمدی مشروبات بھی موجود تھے۔شرکا نے دولہا اور دلہن کو قیمتی تحائف پیش کیے جن میں سب سے زیادہ مہنگا تحفہ ’الماس کا تاج‘ تھا جو رکن پارلیمنٹ براالقاطرجی نے دیا۔دلہن سالی عزام حکومتی حامی چینل ’سما‘ میں کام کرتی ہیں جب کہ دولہا زین العابدین ٹریکٹر بنانے والی ایک ایسی کمپنی میں ڈپٹی جنرل منیجر ہے جس کے ایک چوتھائی شیئرز کا بھی مالک ہے۔ اس کے دیگر مزید کاروبار بھی بتائے جاتے ہیں۔شادی کی پرتعیش تقریب کے حوالے سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تسلسل کے ساتھ استفسار کیا جارہا ہے کہ آخر خرچ کیا جانے والا پیسہ کہاں سے آیا ؟ کیونکہ دولہا اور دلہن کے والد سرکاری ملازمین ہیں جن کی تنخواہیں 100 سے 150 ڈالرز ماہانہ تک ہو سکتی ہیں۔دلچسپ امر ہے کہ لاتعداد سوالات پوچھے جانے کے باوجود تاحال دولہا اور دلہن یا ان کے خاندانوں کی جانب سے جوابات نہیں دیے گئے ہیں۔