تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے تحت 7 0 اپریل کو دنیا بھر میں ورلڈ ہیلتھ ڈے منایا جاتاہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے قیام کے بعد 7 اپریل 1948 کو صحت کا پہلا عالمی دن منایا گیا تھا۔ یوں اس سال پوری دنیا میں یہ 67 واں ورلڈ ہیلتھ ڈے ہے ۔ہم صحت مندکس انسان کوکہتے ہیں ؟پہلے اس بات کو سمجھا جائے کہ اگر جسمانی ،نفسیاتی،اور روحانی طور پر مطمئن فرد ہے تو وہ صحت مند ہے۔ اچھی صحت کے لئے جسمانی ، ذہنی ، معاشرتی اور روحانی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے۔ اگرکوئی خوش نہیں ہے تو وہ صحت مند نہیں ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ جسمانی ،ذہنی،معاشرتی اور روحانی صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے ایک صحت و بیماری کا انحصار دوسری پر ہے۔ مثلا نفسیاتی بیماریوں کے سبب سے جسمانی بیماریاں پیدا ہو تی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان اپنی صحت سے متعلق مندرجہ ذیل چند باتوں کا خیال رکھ کر بہت سی پیچیدہ اور جان لیوا بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ہفتے میں 4 سے 5 مرتبہ 45 سے 60 منٹ کی ورزش دل کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
شوگر کے مریض دن میں کم از کم 60 منٹ پیدل چلیں ۔ ورزش کرنے کے عمل کو اعتدال کے ساتھ انجام دیں تاکہ حد سے زیادہ سانس نہ پھولے ۔مناسب اور معیاری خوراک کا استعمال کریں جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو ۔ خوراک میں دودھ ، پھل اور سبزیاں زیادہ استعمال کریں ۔ تیل اور گھی میں تلی ہوئی اشیاء سے پرہیز کریں تاکہ دل اور معدہ کی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ خوراک میں لال مرچ کا استعمال بے حد کم کریں اور نمک بھی کم مقدار میں استعمال ہو تو بہتر ہے ۔اسی طرح مٹھاس بھی۔ رات کو سونے سے قبل ایک سے دو گلاس پانی پینے کو اپنا معمول بنائیں۔ رات کا کھانا سورج غروب ہونے کے فورا بعد کھانے کی کوشش کریں۔یعنی متوازن خوراک،مناسب پابندی سے ورزش کر کے بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔ معدے میں گیس ، گھبراہٹ ، بے چینی ، خفگی ، سر کا درد ، پٹھوں کا کھچائو ، چکر آنا ، بے ہوشی کے دورے پڑنا، جھٹکے لگنا ،دل پر دبائوپڑنا ، دل کا ڈوبنا ، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا ، شدید گھبراہٹ ہونا۔ ہر وقت ایک عجیب اور انجانہ سا خوف رہنا ،ہر وقت مایوسی اور پریشانی ، نہایت کمزوری ، کسی کام کاج میں دل کا نہ لگنا، منفی خیالات، رونے کو دل کرنا، نیند کم اور بھوک کم ہو جاتی ہے ۔ وزن کم ہونا شروع ہو جانا یا بہت بڑھ جانا،قبض، چڑ چڑاپن اور بلاوجہ غصہ آنا۔ خودکشی کے ارادے ۔ لوگوں سے الگ تھلگ رہنا ۔ دوسرے لوگوں پر شک اور وہم کرنا،خوفزدہ رہنا ۔بلاوجہ ہنسنا اور تنہائی میں اپنے آپ سے باتیں کرنا ۔یہ اور اس طرح کی بے شمار بیماریاں نفسیاتی اور روحانی ہیں۔
ایسی بیماریوں کا ٹیسٹ کروائیں تو رپورٹس میں کچھ نہیں آتا۔ اس لیے کہ ان کا علاج نفسیاتی یا روحانی طور پر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالی کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلنے ،نافرمانی کرنے ،حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے نہ کرنے،قانون فطرت سے ہٹ کر زندگی گزارنے سے بھی بہت سی بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔بہت سی جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی نفسیاتی یا روحانی ہوتی ہے ۔دو سو سے زائد نفسیاتی ،جسمانی بیماریوں کی وجہ صرف شک ہے ۔اور شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ہم میں سے ہر ایک انسان صحت مند رہنا چاہتا ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر بیمار ہوتے ہیں جسم کے مختلف اعضاء اگر ٹھیک طور پر کام نہ کریں تو انسان بیمار ہو جاتا ہے اور ہم فورا ڈاکٹر سے جوع کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص جسمانی طور پر بیمار ہو جائے توسب لوگ اس سے ہمدردی کرتے ہیںاور فورا علاج کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔لیکن جب کوئی نفسیاتی یا روحانی طور پر بیمار ہو تو اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔اپنے آپ کو دیکھیں ،اپنے اردگرد دیکھیں آپ کو بہت سے نفسیاتی یا روحانی مریض نظر آئیں گے ۔اوپر درج علامات خود میں تلاش کریں ،اور اپنے اردگرد افراد میں تو ان کی بیماری سمجھ آئے گی،جیسی بیماری ہو ویسا علاج ہونا چاہیے ۔ایک نسخہ کیمیا یہ بھی ہے ۔(یہ نسخہ کیمیاء میرے خیال کے مطابق شائد حضرت امام غزالی کی کسی کتاب میں پڑھا تھا اس کا حوالہ میرے پاس نہیں ہے) نفسیاتی اور روحانی صحت کا نسخہ۔ اجزائ: سچائی کی کلیاں ، دیانت داری کے پھول ، عاجزی کے انگور ، محبت کی چاشنی ، اتفاق کی طاقت ، سادگی کا حسن ، اخلاص کی مٹھاس۔ ترکیب : ان اشیاء کو طہارت و نظامت کی ہنڈیا میں ڈالیں اور ریاضت کے چولہے پر چڑھا دیں ۔ محبت الہی کی آنچ دیں ، اخلاص کا ڈھکنا ڈھک کر پکنے دیں اور لمحہ بھر کے لیے بھی غفلت نہ برتیں۔ جب پک کر تیار ہو جائے تو شریعت کے نفیس مرتبان میں ڈال لیں۔
استعمال : صبح و دوپہر اور شام رحم دلی کی گل قند ملا کر انصاف کے چمچ سے بلا ناغہ کھائیں ۔پرہیز : لالچ ۔ حرص ، ہوس ، غصہ اور حسد ،کینہ اور آلاشوں سے مکمل اجتناب کریں۔ نوٹ : دوا کو اپنے مخفی اعمال کی فریج میں رکھیں تا کہ شیطان کی دسترس سے محفوظ رہے۔ پاکستان میں صحت کا معیار غیر تسلی بخش ہے ۔صحت کی مناسب سہولیات مہیا کرنے کے لئے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی شرح آبادی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ، اس لئے لوگوں کو مناسب طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔پاکستان میں کل آبادی کتنی ہے ،کتنی آبادی کے لیے ایک ہسپتال کی ضرورت ہوتی ہے ،کتنے ڈاکٹر ہونے چاہیے ،وغیرہ جیسے بنیادی سوالات کے تسلی بخش جواب ملنا اور اس مسائل کا حل ہونا ذمہ داروں کی ترجیح نہیں ہے ۔ہمارے ہاں سرکاری نظامِ صحت میں بہت سی کمزوریاں ہیںکہیں ڈاکٹر نہیں،کہیں دوائی نہیں ہے ، کہیں ٹیسٹ نہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور پیسے بھی دینے پڑتے ہیں اس لیے صاحب حثییت لوگ پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔اور غریب دھکے کھاتے رہتے ہیں۔سرکاری ڈاکٹرز نے پرائیویٹ کلینک بنا رکھے ہیں ،حالانکہ اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے کل خرچ کا 73 فی صد حصہ لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جب کہ بقیہ 27 فیصد میں فلاحی ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں اور حکومت کا حصہ انتہائی کم ہے ۔ حکومتوں نے صحت کے شعبے کو مشترکہ عوامی فلاح سمجھنے کی بجائے کاروبار سمجھ رکھا ہے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی پارٹیاں چاہے حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں عوام کو صحت کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے وعدے کے حوالے سے ،آئین پاکستان میں درج حکومت کے فرائض وغیرہ کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا اگر کرتا ہے، تو صرف بات کرتا ہے عملی اقدامات سے پرہیز کیاجاتا ہے ۔ جب کہ اپنے اپنے مفاد کی خاطر واویلا کرکے آسمان کو سرپر اٹھا لیتے ہیں۔اور آئین میں ترمیم و اضافہ کر لیا جاتا ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال