سابق وزیر اعظم کی نااہلی کے بعد سے ہی جمہوری حالات مزیدناساز گار ہوتے جارہے ہیں ۔ نواز شریف کے بیانیے کو مقبولیت مل رہی ہے یا نہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس بیانیے نے سابق وزیر اعظم کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے جس کے بعد سے مقتدر قوتوں نے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کے گرد گھیرا تنگ کررکھا ہے ، اس گھیرے سے نکالنے کے لیے ان کے چندایک ساتھی زور لگا رہے ہیں لیکن جتنا وو زور لگاتے ہیں رسی اتنی ہی تنگ ہوئی جاتی ہے ۔اس بیانیے کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے بہت سے ساتھی ان کو چھوڑ گئے ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے دیرنیہ کارکن چوہدری نثار بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی ایک اہم پریس کانفرنس میں نواز شریف کو مشورہ دیا تھا کہ سیاست دنگل کا نام نہیں بلکہ راستہ نکالنے کا نام ہے ، لیکن میاں صاحب نے ٹھان لی تھی کہ اب انہوں نے راستہ نہیں بنانا بلکہ حتمی لڑائی لڑنی ہے ۔اس حتمی لڑائی کا نتیجہ 13 جولائی کو سامنے آیا کہ نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ اپنی اہلیہ کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر اتحاد ائیر ویز کی فلائیٹ سے وطن واپس آئے ان کے ساتھ میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے وطن واپسی سے پہلے نواز شریف اور ان کی بیٹی کے بیانات سامنے آئے کہ عوام ووٹ کی عزت کی خاطر سڑکو ں پر آئے او ر ان کے استقبال کے لیے عوام ائیر پورٹ پہنچے ان کے اعلان کے بعد ہی قانون نافذ کرنےو الے اداروں کی بھاری نفری ائیر پورٹ پہنچ گئی اور لاہور کی شاہراوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں ، اعلان کے بعد سے ہی مسلم لیگ ن کے رہنماوں نے استقبال کی تیاریاں شروع کر دیں اور ایک پر ہجوم ریلی بھی نکالی گئی جس کی قیادت میاں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کر رہے تھے واقفان حال کا کہنا ہے کہ ریلی پر ہجوم تھی لیکن اس کو پیمرا کی ہدایات کے مطابق میڈیا پر نہ دکھایا گیا، یہ مان لیتے ہیں کہ ریلی پر ہجوم تھی اور عوام بھی لاکھوں میں تھی تو پھر تو ریلی کے لیے آسان تھا کہ ائیر پورٹ پہنچ جاتے اور اگر کچھ روکاوٹیں کھڑی بھی کر دی گئی ہیں وہ عوام اٹھا پھینکتی اور اس طرح سے ریلی کو کوریج بھی ملتی اور اگر یہ ریلی ائیر پورٹ پر پہنچ جاتی تو بات بن جاتی مگر جب شہباز شریف کی ریلی چئیر کراس کے پاس پہنچی تو میاں نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں پہنچا دیا گیا ، جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتراز احسن نے تبصرہ کیا کہ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو دھوکہ دیا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے ۔ اس سے قبل یہ اطلاعات بھی تھیں کہ میاں صاحب اور ان کی بیٹی کو اڈیالہ جیل کے بجائے سہالہ
ٹریننگ کالج کے گیسٹ ہاوس میں منتقل کردیا جائے اور گیسٹ ہاوس کو سب جیل قراردےدیا جائے لیکن جیسے ہی میاں صاحب پنڈی پہنچے اور ان کے قافلے کو پرانے ائیر پورٹ والی سائیڈ پر موڑ دیا گیا ، ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے انتظامیہ کو فون کیا گیا کہ ایک مجرم آرہا ہے ناکہ اسٹیٹ گیسٹ جس کو گیسٹ ہائوس منتقل کیا جارہا ہے لہذاٰ اس کو گیسٹ ہاوس کے بجائے اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے جس کے بعد نواز شریف اور اس کی بیٹی کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا لیکن میاں نواز شریف ، انکی بیٹی اور داماد کو اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے بعد کھیل ختم نہیں ہوگیا ہے بلکہ حالات مزید خراب ہونگے ، ایسے میںملک کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کا متحمل نہیںہوسکتا ہے ۔ کیونکہ اس رائے سے انکار ممکن نہیں کہ نواز شریف چاہیے جیل میں ہوں ان سے لیڈر شپ نہیں چھینی جاسکتی ہے اس واقعہ نے ان کی مقبولیت میں کمی نہیںکی کیونکہ نواز شریف کو قومی قیادت کے طور پر دیکھا جارہا ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے ان کی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہوگیا لہذاٰ ایسے میں ان کے ساتھ کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ قومی سیاست اور ملک کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔جس بیانیے کو وہ شدت کے ساتھ بیان کررہے ہیں اسی شدت سے ان کو سیکیورٹی کی بھی ضرورت ہے تاکہ کوئی ناعاقب اندیش ملک کونقصان نہ پہنچا دے کوئی ایسا واقعہ نہ پیش آجائے جیسا کہ محترمہ بی بی شہید کے ساتھ پیش آیا اس حوالےسے آج کل سوشل میڈیا اور مختلف ویب سائیٹ پر ایک خواب بھی گردش کررہا ہے جس میںقاسم نامی نوجوان کے خواب کو بیان کیا جارہا ہے جو کہ اس نے 4 مئی 2018 کو دیکھا جس میں اس نےدعوٰ ی کیا کہ رسالتماب ﷺنے اس کو آگاہ کیاکہ میاں صاحب کو نااہل کردیا جائے گا، اس نااہلی کے بعد ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ان کی جان کو بھی خطرہ در پیش ہوسکتا ہے ، قاسم کے روحانی خوابوں کو سوشل میڈیا پر سیکڑوں نوجوان مسلسل فالو کررہے ہیں اورصورتحال پر نظر رکھے ہیں ، لیکن یہ حالات کی سنگینی کی طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ ملک اور جمہوریت کی سلامتی کےلیے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی زندگی بہت ضروری ہے لیکن خدانخواستہ اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ جس سے نواز شریف اور مریم نواز کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوا تو ایسا ملک اور جمہوریت کے لیے انتہائی نقصان ہوگا۔ کیونکہ میاں نواز شریف
کی نااہلی اور ان کے بیانیے میں شدت کے بعد سے ان کے تحفظ کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے اور بی بی کی شہادت کے بعد ملک اس قسم کے کسی اور واقعہ کا متحمل نہیںہوسکتاہے ۔
تحریر عاطف شیرازی