تحریر: سالار سلیمان
اکیسوی صدی میں کسی بھی ملک کی معیشت ہی اس کے استحکام کی عکاسی کرتی ہے ۔ امریکہ کو مضبوط اس لئے ہی کہا جاتا ہے کہ کیونکہ ہزار مسائل کے باوجود آ بھی اس کی معیشت مضبوط ہے ۔ ترکی دنیا کا اہم ملک اس لئے ہے کہ وہ گزشتہ بیس برسوں میں مرد بیمار سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آ چکا ہے’ آج ترکی جی ٹوئنٹی کا حصہ ہے۔ چین کی وجہ شہر ت بھی ”میڈ ان چائنا ”کی وجہ سے ہے۔
کسی بھی ملک کی معیشت کو جانچنے کیلئے دنیا بھر میں مختلف ادارے نجی طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے اعداد و شمار اور رائے اس قدر مضبوط ہوتی ہیں کہ بڑی کمپنیاں اور سرمایہ داران بیرون ممالک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، ان کی رپورٹس اور اعداد وشمار پر گفتگو کرتے ہیں اور اس کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا فلاں ملک کے اس شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے یا نہیں کی جائے ۔ ان ہی اداروں میں سے ایک نامور ادارے کا نام ‘مورگن سٹینلے کیپیٹل انٹرنیشنل ‘ یعنی ایم ایس سی آئی ہے ۔ 1969ء میں قائم ہونے والے ا س ادارے کی ساکھ کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان میںبے شمار مسائل ہیں، یہاں پر ایک مسئلہ ابھی وسط میں ہوتا ہے تو دوسرا مسئلہ اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آ جاتا ہے ۔ تاہم، میں یہ تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں کہ پاکستان میں صرف مسائل کا انبار ہی ہے ۔ اگر ہم نظر کا فوکس تھوڑا سا ہی تبدیل کریں تو پاکستان میں مثبت پہلو بھی نظر آتے ہیں۔ غیر جانبداری سے دیکھیں تو پاکستان ہمیں بہتری کی جانب گامزن محسوس ہوتاہے ۔میں اپنے دعوے کے ثبوت میں ذیل میں کچھ حقائق پیش کر رہا ہوں۔
حالیہ دنوں میں مورگن سٹینلے کیپیٹل انٹرنیشنل نے پاکستان کو ایمرجنگ مارکیٹس (ای ایم) انڈیکس کی درجے پر جگہ دی ۔یعنی اس ادارے نے پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت کے انڈیکس میں جگہ دی ہے اور اس ادارے کی ساکھ ایسی ہے کہ اس کی رپورٹ کو چیلنج کرناآسان نہیں ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے ہمسائیہ ملک چین کی معیشت اس انڈیکس میں جگہ نہیں بنا سکی ہے ۔ عالمی انڈیکس کے اس ادارے نے چین کے کلاس ایمین لینڈ شیئرز کو ای ایم انڈیکس میں شامل کرنے سے معذرت کر لی ہے ۔ یہ ایسا فیصلہ ہے کہ فی الوقت عالمی سرمایے کی مارکیٹ میں چین کی رسائی کو دھچکا ضرور لگا ہے اور اب اگلے سال 2017ء میں چین کے اے شیئرز کا جانچا جائے گا’ جس کے بعد ہی چین کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ سردست ہمارے لئے باعث مسرت بات پاکستان کی شمولیت ہے کہ پاکستان کو ای ایم انڈیکس میں شمولیت کا سنہری موقع ملا ہے ۔یہاں پر ایک نقطہ قابل غور ہے کہ پاکستان اس سے پہلے ایم ایس سی آئی فرنٹیئر انڈیکس میں 8.8%کے ساتھ تھا، جبکہ ای ایم انڈیکس میں اس کا حجم 0.19%ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس وجہ سے ہے کہ پاکستان نے پہلے انڈیکس میں کامیابی حاصل کی ہے تو دوسرے انڈیکس میں اس کو نیچے سے اوپر کی جانب آنا ہے جو کہ انشااللہ پاکستان جلد ہی آ جائے گا۔ فی الوقت تو اس انڈیکس میں شمولیت کی وجہ سے ہی ملک کے بہت سے سرمایہ کار پر جوش اور پر امید بھی ہیں۔
گزشتہ سالوں میں پاکستان عالمی ذرائع ابلاغ میں کسی نہ کسی طرح خبروں کی صورت میں موجود رہا ہے ۔ اب عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہی پاکستان میں معیشت اور سیاست میں خاصا توازن قائم ہو گیا ہے جو کہ معاشی لحاظ ہے نہ صرف خوش آئند بلکہ درست سمت بھی ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی میں نمایاں کمی کی وجہ سے یہاں پر کاروبار کیلئے ساز گار ماحول تیار ہو رہا ہے جس سے مثبت معاشی انڈیکیٹرز کو فرو غ ملا ہے ۔
2015ء میں فوربس کے کنٹری بیوٹر ڈینئل رنڈے نے پاکستان کو ”اگلی کامیاب کہانی ” قرار دیا تھا۔ اپنی تحریر میں انہوں نے بہتر ہوتی ہوئی سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو معاشی میدان کی اگلی کامیاب کہانی کہا تھا۔ انہوں نے اپنے مضمون میں افواج کے ساتھ مل کر کام کرنے پر وزیر اعظم پاکستان کی تعریف بھی کی تھی ۔
انہیں خطوط پر عالمی ادارے بلوم برگ نے بھی ایک رپورٹ کی تھی جس میں پاکستان کی بہتر ہوتی ہوئی سکیورٹی کو موضوع بناتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ کیسے امن و امان کی بہتری نے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر مثبت اثر ڈالا تھا ۔بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں زمین ڈاٹ کام کے اعدادو شمار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک سال کے عرصے میں کراچی میں 22فیصد اور لاہور میں 14فیصد قیمتیں بڑھی ہیں۔
حال ہی میں فنانشل ٹائمز میں ہاکستان کے ایم ایس سی آئی میں شمولیت کے بارے میں ایک مضمون چھپا ہے ۔ اس مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی میں 74فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے ۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ چند ہی برسوں میں پاکستان میں دہشت گردی میں اس حد تک کمی آئی ہے ۔ اسی مضمون میں افراط زر پر بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس میں 3.3فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ہے معاشی گروتھ میں4.5فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔یہاں قابل ذکربات یہ ہے کہ پاکستان کا مالی خسارہ جی ڈی پی کے 4.1فیصد تک آ گیا ہے ۔ مزید براں فنانشل ٹائمز نے پاکستان کی بہتر ہوتی سیکورٹی کی صورتحال کے حوالے سے گلوبل چیف اکنامسٹ چارلس روبرٹسن کے تجزیے کا اقتباس بھی شامل کیا ہے جس کے مطابق فی کس کی بنیاد پر امریکہ میں بندوق سے مرنے کا امکان پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے مرنے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ مثبت تبدیلیاں اور خبریں جہاں پاکستانی عوام کیلئے خوشی کا باعث ہیں وہیں چین پاکستان اقتصادی راہدای کے منصوبے کی وجہ سے بھی عالمی قوتیں پاکستان کی مارکیٹ کو نئی امنگ کے ساتھ دیکھ رہی ہیں۔
پاکستان میں اینگرو کارپوریشن نے اپنے 51فیصد حصص ایک ڈچ کمپنی کو 44کروڑ 80لاکھ ڈالرز میں بیچے ہیں۔ اس نے اینگر و فرٹیلائزرز میں سے بھی اپنے فیصدشیئرز 18کروڑ 50لاکھ ڈالر میں فروخت کئے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور ڈیل میں ڈاولینس کو ترکی کی ایک کمپنی آرکیلک نے 25کروڑ 80لاکھ ڈالر میں خریدا ہے ۔ پاکستان میں کاروبار کے وسیع مواقع کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی معروف کمپنی بوش نے بھی لاہور میں اپنے دفتر کا آغاز کر دیا ہے ۔ جرمنی نے سفیر نے پاکستان کو ایک دلچسپ مارکیٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیںہے۔ یورپ میں گھریلو آلات کے سب سے بڑے مینوفیکچررBSH Hausgeräte GmbHنے پاکستان کو’ ممکنہ بزنس ڈسٹی نیشن’ قرار دیا۔ پاکستان میں رائج آٹو پالیسیوں کی وجہ سے گاڑیو کے معروف نام آوڈی نے پاکستان کی مارکیٹ میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ اس کیلئے آغاز میں جرمن آٹو موبیل کمپنی سی بی یوز کی درآمد کے ذریعے سے اپنی کاروں کی مقبولیت کو جانچے گی ، اگر اس حوالے سے مقبولیت دیکھنے میں آتی ہے تو پاکستان میں اسمبلنگ یونٹ قائم کیا جائے گا۔ رینالٹ نسان کی انتظامیہ بھی پاکستان میں پلانٹ لگانے کے بارے میں غور کر رہی ہے ۔ اسی طرح معروف ترین برانڈ سوزوکی کا کہنا ہے کہ و ہ پاکستان میں نئی فیکٹری لگانے کیلئے مزید 46کروڑ ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرے گے۔
جہاں پر یہ سب کچھ مثبت تصویر ہے ‘پاکستان کا روشن رُخ ہے اور پاکستان کی معیشت کیلئے بہتر ہے تو وہیں پر تجزیہ کار وں کو کم ہوتی ہوئی ایف ڈی آئی پریشان کر رہی ہے ۔رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 250بلین ڈالر کی معیشت آٹھ سالوں میں تیزی سے ترقی کر رہی ہے ۔ اس کے باوجود ایف ڈی آئی کا بہاؤ ملک کی ضروریات سے کافی کم ہے ۔ اگرچہ ی سال2016 کے پہلے گیارہ مہینوں میںاس میں مالی سال 2015کے مقابلے میں10 فیصد اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجودیہ محض ایک بلین ڈالر کے مساوی رہی جو کہ معیشت دانوں کے مطابق بہت کم ہے۔
بہت سے تجزیہ کار وں کا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں طویل مدتی بیرونی سرمایہ کاری کی پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان کی مارکیٹ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کو محسوس کرتے ہیں’ تاہم امید ہے کہ ایم ایس سی آئی میں شمولیت سے دنیا کے سامنے پاکستان کا امیج بہتر ہوگا’جس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہو چکے ہیں اور ان کا ہم نے اوپر ذکر بھی کیا ہے۔ پاکستان570ملین ڈالر ایف ڈی آئی کیپیٹل کی توقع کررہا ہے اور بہت سے لوگ اعدادوشمار کو4.4بلین ڈالر تک کی بلند سطح پرجاتا ہو ا بھی دیکھ رہے ہیں۔ یہ خبریں اب بھی گردش میں ہیں کہ ایک پاکستانی اور تین غیرملکی سرمایہ کار پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں40 فیصد حصص خریدنا چاہتے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ملک بھر میں خاص طور پر اس کے معاشی مرکز کراچی کی قسمت اس کی بہتر سکیورٹی سے منسلک ہے۔ اب تک وزیر اعظم نواز شریف اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کی پارٹنر شپ میں ملک میں بہتری آئی ہے اور یہ پارٹنر شپ ابھی تک برقرار ہے ۔ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں خاتمے کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیںملک کی قسمت کے حوالے سے بے یقینی میں اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم اتنا ہے کہ چند ایک ہچکولوں کے باوجود پاکستان معاشی اور سیاسی طور پردرست سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ترقی کا یہ سفر ہر قیمت پر جاری و ساری رہنا چاہئے ۔
تحریر: سالار سلیمان
لاہور
03004777607