پاناما کیس کا معاملہ حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جس کے لیے سپریم میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پہلی اہم ترین سماعت شروع ہوگئی ہے۔
شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے۔ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس میں شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد بتایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کر رہا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید شیخ اور اعجاز الاحسن بینچ کا حصہ ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن)، فریقین جماعتوں کے رہنماؤں سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔
اس موقع پر سیکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات کیےگئے ہیں۔ پولیس کے سیکڑوں اہلکار عدالت عظمیٰ کے اطراف سیکیورٹی کے لیے مامور ہیں جب کہ کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ پاناما حکمراں مسلم لیگ (ن) اس کیس پر اپنی قانونی لڑائی لڑنے کو تیار ہے جس کے لیے حکومت نے قانونی ماہرین سے مشاورت مکمل کرلی ہے۔ ذرائع کے مطابق شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرادیئے ہیں۔ شریف خاندان کی جانب سے دائر اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی کا رویہ غیر منصفانہ تھا اور اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا لہٰذا عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرے۔
کیس کے فریقین جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنی اپنی تشریحات کررہے ہیں جب کہ فریقین سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررکھا ہے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی اور آفتاب شیر پاؤ نے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کردیا۔ تاہم وزیراعظم نے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ وزیراعظم کو اپنی کابینہ سے بھی بھرپور اعتماد حاصل ہے اور کابینہ نے انہیں استعفیٰ نہ دینے اور ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔