کراچی: سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے آئندہ دو ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا گیا، مرکزی بینک نے شرح سود میں 1.50 فیصد اضافہ کردیا جس کے بعد شرح سود 10.75 سے بڑھ کر 12.25 فیصد ہوگئی۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کی زیر صدارت مانیٹری پالیسی کا اجلاس مرکزی بینک میں ہوا جس کے بعد آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق مانیٹری پالیسی سخت کیے جانے کے باوجود نجی شعبے کا قرض 9 اعشاریہ 4 فیصد بڑھا ہے۔مانیٹری پالیسی کے مطابق مہنگائی کی اوسط شرح گزشتہ سال 3.8 فیصد کے مقابلے میں 7 فیصد ہو گئی ہے۔مرکزی بینک کے اعلامیہ کے مطابق گزشتہ 3 ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا، اگلے سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ زری پالیسی بیان میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2019ء میں زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے تین نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ اوّل، حکومت ِپاکستان کا عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سٹاف کی سطح پر 39 ماہ پر محیط توسیعی فنڈ سہولت کے تحت تقریباً 6 ارب ڈالر کے لیے اتفاق ہوگیا ہے۔ پروگرام کا مقصد معاشی استحکام بحال کرنا اور پائیدار معاشی نمو میں معاونت کرنا ہے اور توقع ہے کہ اس کے نتیجے میں خاصی مزید بیرونی سرمایہ کاری آئے گی۔ دوم، مالی سال 18ء کی اسی مدت سے موازنہ کیا جائے تو حکومتی قرض کے رجحانات مالی سال19ء کے پہلے نو ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے مالی خسارے کی عکاسی کرتے ہیں۔ گذشتہ زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس سے اب تک شرح مبادلہ میں 5.93فیصد کمی آئی ہے اور 20 مئی 2019ء کے اختتام پر 149.65 روپے فی امریکی ڈالر پر پہنچ گئی ہے جس سے مضمر معاشی عوامل اور مارکیٹ کے احساسات کے امتزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 19ء میں معاشی نمو سست ہونے جبکہ مالی سال 20ء میں کسی قدر بڑھنے کی توقع ہے۔یہ سست رفتاری زیادہ تر زراعت اور صنعت کی پست نمو کی وجہ سے ہے۔ مالی سا ل 19ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا دوتہائی سے زائد حصہ خدمات سے آنے کی توقع ہے۔ آگے چل کر آئی ایم ایف کی مدد سے چلنے والے پروگرام، شعبہ زراعت میں تیزی اور برآمدی صنعتوں کے لیے حکومتی ترغیبات کے تناظر میں مارکیٹ کے احساسات بہتر ہونے کے طفیل معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بحالی کی توقع ہے۔بیرونی شعبے کے حوالے سے زری پالیسی میں بتایا گیا کہ جولائی تا مارچ مالی سا ل 19ء میں پچھلے سال کی اسی مدت کے 13.6 ارب ڈالر کے مقابلے میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوکر 9.6 ارب ڈالر رہ گیا یعنی 29 فیصد کمی ہوئی۔ اس کمی کا بنیادی سبب درآمدی کمی اور کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی بھرپور نمو ہے۔ یہ اثر تیل کی بلند عالمی قیمتوں کی وجہ سے جزوی طور پر زائل ہو گیا۔ نان آئل تجارتی خسارہ جولائی تا مارچ مالی سال 18ء کے 13.7 ارب ڈالر سے گھٹ کر جولائی تامارچ مالی سال 19ء میں 11.0 ارب ڈالر رہ گیا جس سے جنوری 2018ء میں استحکام کی اب تک نافذ کردہ پالیسیوں کے اثر کی عکاسی ہوتی ہے۔حالیہ اظہاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ برآمدی حجم بڑھنا شروع ہوگیا ہے
گو کہ ناسازگار نرخوں کی بنا پر مجموعی برآمدی وصولیاں نہیں بڑھی ہیں۔جاری کھاتے میں بہتری اور سرکاری دوطرفہ رقوم کی آمد میں قابل ذکر اضافے کے باوجود جاری کھاتے کے خسارے کی مالکاری میں دشواریاں درپیش رہیں۔ نتیجے کے طور پر ذخائر آخر مارچ 2019ء میں 10.5 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 مئی 2019ء کو 8.8 ارب ڈالر ہوگئے۔گذشتہ چند دنوں میں طلب و رسد کے حالات کی بناء پر شرح مبادلہ بھی دبائومیں آگئی۔ اسٹیٹ بینک کے نقطہ نظر سے شرح مبادلہ میں حالیہ اتار چڑھائوماضی کے جمع شدہ عدم توازن کے مسلسل تصفیے اور کسی حد تک طلب و رسد کے عوامل کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ اسٹیٹ بینک صورت ِحال کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور بازار ِمبادلہ میں کسی قسم کے ناگوار تغیر سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کو تیار ہے۔مزید برآں ذخائر کی موجودہ سطح کفایت کی معیاری سطح (تین ماہ کی درآمدات کے مساوی)سے نیچے ہے۔ جیسا کہ گذشتہ زری پالیسی بیانات میں کہا گیا، بھرپور ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ برآمدی شعبوں کی پیداواریت اور مسابقت بہتر ہو اور تجارتی توازن میں بہتری آئے۔