تحریر : انجم صحرائی
وادی سندھ کے تھرپار کر میں غذائی قلت اور پیاس سے دم تو ڑ تے معصوم بچوں کی ذمہ داری اٹھا نے کو کو ئی بھی تیار نہیں۔ نہ سندھ ماں دھرتی کی دعویدار پیپلز پا ر ٹی اور نہ وفاق میں حکمرا نی کا تاج سجائے قائد اعظم کی بزعم خود وارث مسلم لیگ اور نہ اسلام آباد میں دھر نوں کا فیسٹول سجا ئے خان جی نہ تکمیل پاکستان کی تحریک کے علمبردار سراج الحق اور نہ ہی آئین کے تناظر میں آئین کی روح تلا ش کر نے والے مولانا فضل الرحمن غرض سبھی اپنی اپنی مستیوں میں گم پیچیدہ سیا سی گتھیاں سلجھا نے میں مصروف ملک کو بحرا نوں سے نکا لنے میں مست ہیں حکمرانوں کے غیر ملکی دورے، سیا سی جما عتوں کے بڑے بڑے مہنگے جلسے، ڈھول کی تھاپ اور سٹیجوں سے نشر ہو نے والے جما عتی اور انقلا بی ترا نوں پر جھو متے، گا تے اور دھمال ڈالتے انقلاب، آزادی اور تبدیلی کے متوالے۔
ایک طرف یہ سب کچھ اور دو سری طرف ان سبھی عوام دوست سیا ستدا نوں اور عوامی با لا دستی کے دعویدار سیا سی جما عتوں کے ہو تے ہو ئے ہر روز خبر سننے اور پڑ ھنے کو ملتی ہے کہ تھر کا قحط ایک اور معصوم کھا گیا ، موت نے تو آنا ہے کہ موت اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں آتی مگر بھوک اور پیاس کی شدت سے مر نے والے کی اذیت کا جواب دہ کون ہے ؟ اس کا ذ مہ دار کون ہے بس یہی ایک سوال ہے جس کا جواب کو ئی بھی اپنے سر لینے کو تیار نہیں ۔ نہ ہی ارباب اقتدارو اختیار اور نہ ہی ہما ری اشرا فیہ ۔اگر ذ مہ داری کا احسا س ہو تو حضرت عمر کے فرات کنا رے بھو کے کتے کی موت کے اند یشے پر بہتے آ نسو نہیں رکتے، کتا بھوک سے مرا نہیں تھا بس ایک احساس تھا ذمہ داری کا ۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمارا احساس ہی مر چکا ہے یا پھر ہم اتنے رو چکے ہیں کہ آ نکھیں ہی اند ھی ہو گئی ہیں کہ ہم اتنا سن چکے ہیں کہ ہمارے کان ہی بہرے ہو چکے ہیںنہ ہمیں بھوک سے مرتے ان پیا سے معصوم بچوں کی سسکیاں سنا ئی دیتی ہیں اور نہ ہی ان ما ئوں کے بین جن کی با نہوں میں ان ادھ کھلے پھو لوں نے دم تو ڑا ۔یہ ہمارے اندھے گو نگے ہو نے کا ہی ثبوت ہے کہ قحط سے مر نے والے لو گوں کے لئے بھیجی جا نے والی گند م کی بو ریا ں مٹی کی بو ریاں بن گئیں ۔کو ئی ہے پو چھنے والا ؟ کو ئی ہے جواب دینے والا ؟۔
کس نے جواب دینا ہے ؟ کسی نے جواب نہیں دینا میں نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب دیا ۔وہ اس لئے کہ یہ ہمی ہیں اور یہی ہمار اصل چہرہ ہے ، ہمارے کا لے کر توت اور مکروہ چہرے نے ہماری ریا ست کا حسن بھی گہنا دیا ہے لگتا ہی نہیں یہ وہ ریا ست ہے جسے قا ئد اعظم کی قیا دت میں بر صضیر کے دس لا کھ مسلما نوں نے اپنے لہو کا خراج دے کر حا صل کیا تھا ۔قیام پاکستان کے وقت جس بیو رو کریسی نے کا نٹوں سے فا ئلوں کر تر تیب کا حسن دیا کہ وسا ئل ہی نہیں تھے کہ کامن پنیں خریدی جا سکیں آج اسی بیو رو کریسی کے محل نما پر تعیش دفاتر کی راہد ریوں میں پڑی ٹو ٹی ہو ئی کر سیاں ہماری اسی حالت پہ نو حہ کناں ہیں ۔ہم نے یہ مسئلہ لیہ کے نئے تعینات ہو نے والے ڈی سی او کے سا منے بھی رکھا ۔ ذرائو ابلاغ سے تعارفی ملا قات میں جب ہمیں مو قع ملا اپنی صحا فیا نہ بلا غت کے اظہار کا مو قع ملا تو ہم نے بصد ادب گذارش کی کہ سر ! گذ شتہ کئی بر سوں سے ہمیں سنا یا جا رہا ہے کہ ہمارے خو بصورت ضلع کا تر قیا تی بجٹ زیرو ہے ایسے میں آپ کیا کر سکتے ہیں یا پھر کیا کر سکیں گے یہ تو آ نے والا وقت ہی بتا ئے گا لیکن آپ ایک کام کر سکتے ہیں جس سے آپ کے آ نے کا احساس بھی ہو گا۔
لو گوں کو کچھ تبد یلی بھی نظر آ ئے گی وہ یہ کہ آپ دفاتر کے مر کزی دروازوں اور دفا تر کے با ہر اور اندر پڑی ٹوٹی ہو ئی کر سیوں کی مر مت کرا نے اور انہیں بنوانے کا حکم جا ری کر دیں کہ یہ دفا تر ہما ری ریاست کا چہرہ ہیں اور یہ ٹو ٹی ہو ئی کر سیاں ہما رے ریا ستی چہرے کی بد نما ئی کا ایک اظہار ہیں ۔ڈی سی او صاحب نے ہماری بات تسلی سے سنی اور زیر لب مسکراہت لئے فرما یا کہ آئندہ آپ کو یہ ٹو ٹی ہو ئی کر سیاں نظر نہیں آئیں گی ریا ست کا چہرہ خو بصورت بنا دیں گے ۔۔مگرقا رئین کرام ٹو ٹی ہو ئی ڈی سی او آفس میں پڑی ٹو ٹی ہو ئی کر سیاں آج بھی ہمارے ریاستی چہرہ کا حسن بنی ہیں اور تھر میں بھوک اور قحط سے مر نے والے بچوں میں آج بھی دو کا اضا فہ ہو گیا ہے۔۔۔۔
تحریر : انجم صحرائی