تحریر: ثمینہ راجہ۔ جموں و کشمیر
جب تقسیم ہند کے وقت پاکستان کا جغرافیائی نقشہ تشکیل دیا گیا تو پاکستان کے معماروں کو بننے والے نئے ملک کی زرعی معیشت کو زندہ رکھنے کے لئیے دریائی پانیوں کی ضرورت تھی- چنانچہ پاکستان کے زرعی میدانوں کو سیراب کرنے والے دریاؤں کے منبعوں پر قبضہ ضروری تھا – بدقسمتی سے پاکستان کے دریاؤں کے لگ بھگ سارے منبعے ریاست جموں و کشمیر کے اندر تھے۔ چنانچہ اپنی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئیے پاکستان کے منصوبہ سازوں نے ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان کے اندر ضم کرنے کا منصوبہ بنایا۔
مگر پاکستان کے اس منصوبے کے راستے میں ریاست جموں و کشمیر کا حکمران مہاراجہ ھری سنگھ حائل تھا – ھری سنگھ کی حکومت نے قانون آزادئ ہند کے تحت ملنے والے اختیارات کے تناظر میں فیصلہ کیا کہ ریاست جموں و کشمیر کو آزاد و خودمختار ملک کے طور پر قائم رکھا جائے – پاکستان نے مختلف حربے استعمال کر کے ھری سنگھ اور ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر جب پاکستان کی دال نہ گلی تو گھی کو ٹیڑھی انگلی کے ساتھ نکالنے کا فیصلہ کیا گیا – دوسری جانب 15 اگست 1947 کو ھندوستان پر سے برطانیہ کا قبضہ ختم ھوتے ھی ریاست جموں و کشمیر کو پاکستان اور بھارت کی طرح آزادی مل گئی۔
مہاراجہ ھری سنگھ اور ریاست کی سیاسی جماعتوں خصوصاً نیشنل کانفرنس کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور مستقبل کے طرز حکومت کا تنازعہ چل رھا تھا – پاکستان نے اس تنازعے کی آڑ میں ریاست کے کچھ سیاسی رہنماؤں (جن میں سردار ابراھیم خان سرفہرست تھے) کو خریدا اور انھیں ریاست کے اندر بغاوت کرنے کی ذمہ داری سونپی – ساتھ ھی پاکستان نے صوبہ سرحد سے قبائلی لشکر اپنی فوج کی قیادت میں ریاست جموں و کشمیر میں داخل کر دئیے – پاکستان کے اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لئیے مہاراجہ ھری سنگھ نے بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کا معائدہ کر کے بھارتی فوج کو پاکستان کے مقابلے میں لا کھڑا کیا – چنانچە پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ھوئی جس کے نتیجے میں ریاست جموں و کشمیر تقسیم ھو گئی -پاکستان نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے نام سے ایک کٹھ پتلی حکومت بنا لی۔
بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا – اقوم متحدہ نے پاکستان کو جارح قرار دے کر اسے اپنی افواج ریاست میں سے نکالنے کے لئیے کہا تا کہ ریاست کے مستقبل کا تعین کرنے کے لئیے سازگار حالات پیدا کئیے جا سکیں – پاکستان نے اس فیصلے کو تسلیم تو کیا مگر بعد میں مختلف حیلے بہانے بنا کر اس پر عملدرآمد کرنے سے انکار کر دیا – اور اپنے زیر قبضہ ریاستی علاقوں میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی غلامانہ روش کی بدولت اپنا قبضہ مزید مستحکم بنا لیا – پاکستان نے 1948 میں معائدہ کراچی کے ذریعے 28174 مربع میل پر محیط ریاست کے شمالی علاقوں گلگت اور بلتستان کو آزادکشمیر سے کاٹ کر براہ راست اپنے انتظامی کنٹرول میں لے لیا اور آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو محض 5134 مربع میل کے اڑھائی اضلاع میں محدود کر دیا۔
یوں ریاست جموں و کشمیر تین انتظامی اکائیوں میں تقسیم ھو گئی مگر اقوام متحدہ نے اس سارے علاقے کو متنازعہ قرار دیا – بھارت اور پاکستان دونوں ریاست جموں و کشمیر پر اپنا اپنا حق ملکیت جتاتے ھیں؛ اس طرح ریاست جموں و کشمیر کا یہ تمام علاقہ (جو آزادکشمیر، جموں، لداخ، وادی، گلگت اور بلتستان پر مشتمل اور مہاراجہ ھری سنگھ کے انتظامی تصرف میں تھا) متنازعہ قرار پایا – اقوم متحدہ نے اس سارے علاقے کے مستقبل کا تعین کرنے کے لئیے آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف استصواب رائے کے انعقاد کا فیصلہ صادر کیا – چنانچہ ساری ریاست جموں و کشمیر متنازعہ علاقہ قرار پائی اور اسکے تمام جغرافیائی خطوں کے مستقبل کا فیصلہ ایک ساتھ کرنے کا اصول طے ہوا – اس اصول پر بھارت، پاکستان اور اقوام متحدہ نے دستخط کر رکھے ھیں – اور تمام فریقین نے اس اعلامیئے کو مشترکہ طور پر قبول کیا ھوا ھے۔
چنانچہ ریاست جموں و کشمیر 13 اگست 1948 کی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ھندوستان و پاکستان کی قرار داد کے مطابق ریاستی عوام، بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ھے – بعد کی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور شملہ معائدہ ریاست جموں و کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ قرار دیتے ہیں – صورتحال کو جس تناظر میں بھی دیکھا جائے یہ بات طے ھے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ھے اور اس کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ھونا ابھی باقی ہے – اس پس منظر میں اگر ان دنوں پاکستان گلگت بلتستان کے علاقوں کو اپنا صوبہ قرار دینے کی بات کر رھا ھے تو پھر یە ظاھر ھوتا کہ بھارتی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھارت اور پاکستان نے چپکے سے ریاست جموں و کشمیر کی تقسیم کو مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے فارمولے “ادھر تم ادھر ہم” کے اصول کے مطابق طے کر لیا ہے۔
قارئین کرام کو اس حقیقت کو بھی یاد رکھنا ھو گا کہ 1993 میں بھارت اور چین نے اقصائے چن کے زمینی تنازعے کو بھی اے ایل سی (Actual Line of Control) کے اصول کے مطابق باھمی طور پر طے کر لیا تھا – یوں بھارت، چین اور پاکستان کے باھمی معائدوں سے لگتا ھے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ کی تشکیل کردہ ریاست جموں و کشمیر کی ابدی تقسیم کو پاکستان، بھارت اور چین آپس میں طے کر چکے ھیں – ریاست کے عام عوام پہلے سے ھی پاکستان اور بھارت کے قبضوں کو تسلیم کر چکے ھیں – جو قوم پرست ریاست کی آزادی اور بحالی کی بات کرتے ھیں ان کی اکثریت بھی پاکستان اور بھارت کی پروردہ ھے – اور وہ حقیقی قوم پرست جو واقعی ریاست کی مال آزادی، خودمختاری اور جغرافیائی بحالی کا مطالبہ کرتے ھیں وہ باھم تقسیم اور گتھم گتھا ھیں – ایسے میں لگتا ھے کہ مادر وطن کی تقسیم کاتب تقدیر کے ھاتھوں لکھی جا چکی ھے۔
مستقبل کا مؤرخ جب ریاست جموں و کشمیر کی ابدی تقسیم کا ذکر کرے گا تو لکھے گا کہ جب قابض قوتیں اپنے اپنے قومی مفادات کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کی بندر بانٹ کر رھی تھیں تو ریاستی عوام اور روائیتی سیاستدان اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس بنانے میں مصروف تھے جبکہ مادر وطن کو آزاد اور خودمختار دیکھنے والے ریاستی عوام کی نمائندگی کرنے والے قوم پرست سیاسی رھنما محض اخباری بیانات اور فوٹو سیشنز کی حد تک محدود تھے – ان حالات میں 11 فروری 1984 کو مادر وطن کی آزادی اور خودمختاری کا خواب آنکھوں میں سجائے پھانسی کے پھندے پر جھولنے والے مقبول بٹ کے خون سے اسکی ریاست جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے لئیے بھارت، چین اور پاکستان اپنے ملکوں کی جغرافیائی حدود وضع کر رہے تھے۔
تحریر: ثمینہ راجہ- جموں و کشمیر