لاہور (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے بارہا کہا کہ کمزور اپوزیشن سے میں بالکل خائف نہیں ہوں ، شاید انہوں نے اپوزیشن کو کمزور اس لیے کہا ہو کہ ”صدر اسلامی مملکت خداداد پاکستان“ کے انتخاب کے موقع پر انہیں جو تجربات ہوئے، اور بکنے کے نہ جھکنے کے نعرے خود لگانے
نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لگوانے والے، وزارتوں، سفارتوں اور مراعتوں کے عوض بک بھی گئے اور جھک بھی گئے، عمران خان کے دستِ راست جہانگیر ترین کا بدترین کردار قوم نے دیکھ لیا، چھانا مانگا کی سیاست کے خلاف انتخابات میں نعرے لگانے والے” مانگا تانگہ“ گروپ سامنے لے آئے، اس عمل کی تکمیل کرتے ہوئے نجانے کن مصلحتوں کے تحت ایسے اکابرین کو سامنے لائے کہ جو سپریم کورٹ میں بلا مشروط معافی مانگتے پھرتے ہیں….اور سپریم کورٹ بھی اس معاملے میں ”افہام و تفہیم “ میں گھری نظر آتی ہے، اگر صوبے کے وزیراعلیٰ کو ناقابل گرفت قانون قرار دے دیا گیا ہے، تو پھر باقی ملزمان کے لیے رحم کا جذبہ کیوں مفقود ہوگیا ہے ؟ اس سے زیادہ ضروری فیصلہ میرے خیال میں الیکشن کے دوران آرٹی ایس کی خرابی کا ہے، جس کی نشاندہی اپوزیشن کی طرف سے وقت پر کردی گئی تھی، جس ملک کا الیکشن کمشنر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو تین دن تک ڈھونڈنے سے اور فون کرنے سے نہ ملے، وہ امیدواران پارلیمان اور کسی ایرے غیرے صحافی کا فون کیسے اُٹھائے گا ؟ ایک اور بات جو قوم کے کروڑوں عوام بطور خاص دلوں میں سمائے بیٹھے ہیں کہ ایک ایسی قوت جس سے چین کی فوج بھی تعاون مانگتی ہے بھارت نے وزیرخارجہ کا دورہ امریکہ سبوتاژ کرنے کے ،
پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کا دست شفقت ،بطور سہولت کار نئے پاکستان کے ساتھ تھا، اور عبوری حکومت بھی اس عمل کا حصہ تھی، جس کا اظہار بڑے واضح الفاظ میں عبوری وزیراعلیٰ حسن عسکری نے کھل کر کیا تھا۔ مگر ایک سقم اور ایک ستم یہ ہوا، کہ چونکہ پیپلزپارٹی ایک واحد جماعت ہے کہ جو بوقت ضرورت عصبیت ، اور لسانیت کو بطور حربہ استعمال میں لے آتی ہے، وزیراعظم پاکستان کی یکساں نظام تعلیم کی پالیسی بہت ہی قابل تحسین ہے، …. مگر اس میں ذریعہ تعلیم بھی ایک ہونا چاہیے، یہ قانون سپریم کورٹ نے بنایا تھا، اب اس پہ بھی ازخود نوٹس لیا جانا چاہیے، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے اپنے پہلے خطاب میں بار بار افواج پاکستان کی تعریف کی ہے، جو کہ میرے خیال میں بلاجواز اس لیے تھی کہ کسی ادارے کا نام لینا، اور وہ بھی ایک تقریر میں کئی دفعہ تو پھر لامحالہ، تو یہ بات کو بلاجواز بنادیتی ہے، جہاں تک جی ایچ کیو میں آٹھ گھنٹے کی بریفنگ اور وہ بھی وزراءسمیت ،اور پھر آئی ایس آئی کا دورہ، یہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں اس شبے کو تقویت دیتا ہے،
کہ یا تو نئے پاکستان کے نئے حکمرانوں میں اہلیت کی کمی ہے، یا پھر ان کو حکومت کو چلانے کے لیے خطوط وحدود کا تعین کرکے بتا دینا، کہ اس صراط مستقیم پر چلا جائے، اور خصوصاً تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف تو ریاست مدینہ جیسا ہونا چاہیے، قارئین میں اس حوالے سے ”عدالت نبوی“کا ایک واقعہ سناتا ہوں، جو ہماری عدالت عظمیٰ کے لیے بھی مشعل راہ ہے، حضرت علقہ بن وائل ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرموت اور ایک کندہ کا رسول پاک کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضری نے کہا کہ اس شخص نے ایک زمین مجھ سے زبردستی چھین لی ہے، جو میرے والد کی تھی کندی نے کہا کہ یہ تو میری زمین ہے، جس کو میں کاشت کرتا ہوں، لہٰذا اس کا اس پر کوئی حق نہیں۔ رسول پاکﷺ نے حضری سے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ؟ اس نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا کہ پھرتم اس کو قسم دلا سکتے ہو، اس شخص نے فرمایا یا رسول اللہ ﷺ یہ بدکردار شخص ہے، اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس نے کیا قسم کھائی ہے، یہ تو کسی چیز سے جھجکتا ہی نہیں، اور نہ ہی اسے خوف خدا ہے، آپ نے فرمایا، کہ بہرحال تمہیں تو صرف اتنا حق ہے کہ اسے قسم دلا سکو (ابوداﺅد)
قارئین کرام، یہ اس مقدمے کی داستان اور روداد ہے جو دنیا کی سب سے بڑی عدالت میں پیش ہوا، حدیث شریف میں موجود اگلی تفصیل سے بادی النظر میں محسوس ہوتاہے، کہ مدعی کی بات میں وزن ہے، اور وہی زمین کا حقیقی مالک ہے مگر قانون کی پاسداری اور عمل داری کے لیے اللہ کے رسول نے مدعی سے فرمایا کہ تمہارے پاس ثبوت یا گواہ ہے ؟ جب مدعی نے نفی میں جواب دیا، تب آپ نے فرمایا، چونکہ تمہارے پاس گواہ نہیں ہے، اس لیے تم مدعی علیہ سے قسم کھانے کا مطالبہ کرسکتے ہو، اگر وہ ایسا کردے، تو مقدمے کا فیصلہ اس کے حق میں کردیا جائے گا حضور نے یہ فرمایا کہ گواہ اور ثبوت نہ ہونے کے بعد تمہارے پاس صرف ایک ہی چیز کا حق ہے کہ تم اسے قسم کھانے کا کہو۔ متذکرہ بالا حدیث شریف کی رو سے آج کے دو ضروری مسئلے، ایک میاں نواز شریف کی رہائی، عدم ثبوت کی بنا پر، اور دوسرا، حزب اختلاف کا حکومت سے یہ مطالبہ کہ انتخاب کے دوران آرٹی ایس کی خرابی کی تحقیقات کے لیے کمیٹی نہیں کمیشن بنانے کا مطالبہ صرف متذکرہ بالا عدالت نبوی کے واقعے پر عمل درآمد کرکے حل کیا جاسکتا ہے
اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ اور عابد رضا عابدی کے درمیان جو پرانی ”عبارت عبس“ کا معاملہ درپیش ہے، جس میں دہشت گردی کا مقدمہ بھی درج کروادیا گیا ہے، اور ڈیم کی مخالفت پر بھی آرٹیکل 6لاگو کردی گئی ہے، چونکہ مجھے تو قانون کی اے بی سی کا بھی نہیں پتہ، مگر کیا یہ آئین کی رو سے نئی قانون سازی ہے؟ کسی بھی فیصلے کے وقت ، جذبات یا غصہ طیش دلانے، اور الاﺅ بھڑکانے پر عدل و انصاف ”نوشیرواں عادل کے اصول کی نفی کرنے پر دلالت کرتا نظر نہ آئے۔ کہ انصاف ایک ایسا قلعہ ہے کہ جس کو نہ آگ جلا سکتی ہے نہ ”توپ“ گرا سکتی ہے۔ اور منصف حضورﷺ کے فرمان“ کے مطابق کہ انصاف کی گھڑی ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے، کے ثواب سے محروم کردینے کا سبب نہ بن جائے، اور اس پر بھی سوچئے کہ کسی نے یہ کیسے کہہ دیا کہ نواز شریف کا آنا جانا لگا رہے گا؟ ویسے میرا مشورہ یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کروڑوں لوگوں کی دعائیں لینی ہیں، تو بھارت کی طرف سے کالا باغ ڈیم بنانے کی مخالفت پہ 6ارب روپے سالانہ ہمارے جن سیاستدانوں کو ملتا ہے، اور یہ آج کل کی بات نہیں کئی دہائیوں سے باقاعدگی سے مل رہا ہے،
اس کی فہرست آئی ایس آئی کے پاس ضرور ہوگی،انہیں بے نقاب کرکے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے اپنے سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کو اگر کٹہرے میں بلایا جاسکتا ہے، دشمن ملک کے پاکستانی ایجنٹوں کے راز کو فاش کردینے میں کیا حرج ہے ؟ نفیسہ شاہ نے جس طرح اظہار عناد، بلکہ فتنہ وفساد کا آغاز کیا ہے، عابدی سے پہلے اس کی سرکوبی زیادہ ضروری ہے، کہ جو پارٹی ”الطاف حسین“ جیسے ”محب وطن“ کے ساتھ سندھ کے عوام پہ مسلط رہی ہے کیا وہ اس موضوع پہ معلومات نہ ہونے کی بناپر قابل گرفت نہیں؟ جو پارٹی ملک کے مفاد کے برعکس حکومت سازی کے انتخابی عمل میں حصہ لینے سے انکار کردے، اور اپنا مفاد مدنظر رکھے، اسے مفاد اور عناد کا بھی پتہ نہ ہو، اسے ملکی مفاد حکمت ودانش سے کیا سروکار؟ قارئین خبر چل رہی ہے کہ شہباز شریف کی میٹروبس میں ایک بھکارن نے رقص کرکے مسافروں کو خیرات دینے پر مجبور کردیا لیکن حیرت ہے جب (آزادی چوک) آیا تو اسے بس سے اتار دیا گیا، سوال پیدا ہوتا ہے، گانا ہندوستانی تھا یا پاکستانی، اردو کا تھا، یا سندھی، پنجابی یا سرائیکی معاملہ تشویشناک ہے، میں تفتیش کے لیے جے آئی ٹی کا مطالبہ کرتا ہوں۔