اسلام آباد(ایس ایم حسنین) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے اپنا تفصیلی بیان میڈیا کو جاری کردیا ہے ۔ اور اس میں نئے انکشافات سامنے آگئے ہیں۔ جن کے مطابق ان کے پاس ہر بات کے ثبوت موجود ہیں مگر ان کو ہر موقع پر کس کس طرح ہراساں کیا گیا یہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
ایف بی آر حکام کو ان کے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے بچوں کے نام کے نوٹسز بھی ان کی رہائشگاہ پر چسپاں کیے گئے ہیں۔ ان کی بیٹی علیحدہ رہتی ہے اور وہ شادی شدہ ہے جبکہ بیٹا لندن میں رہائش پذیر ہے اس لیے ان کے نوٹسز میں ایف بی آر کو واپس کر رہی ہوں تاکہ وہ ڈائریکٹ میرے بچوں کو بھجوائے جائیں۔ مسز سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی وفات ہوئی جو کہ گریڈ 4 کینسر میں مبتلا تھے۔ ان کی وفات کے دنوں میں مجھے سمن بھیجے گئے جبکہ ان کی تدفین کراچی میں ہونا تھی۔ اس دوران مجھے وکیل کا بندوبست کر کے اپنا کیس بھی لڑنا تھا۔ جوکہ ایک سراسر غیر انسانی سلوک ہے۔ اس طرح کھلے عام میرے گھر کے باہر نوٹسز لگایاجانا قطعی غیر مہذب ہے۔ مجھے اتنی شرم آئی کہ جیسے میں کوئی قانون شکن ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے ایف بی آر حکام کو مذموم رویے کی شکایت کی تو ان کا کہنا تھا کہ “حکم اوپر سے ہے”
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی 2019 سے ان کے شوہر کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے انھیں پریشان کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس ماہرین کے مطابق حکومتوں کی طرف سے ٹیکس دہندگان کو بعض رعایات کی بنا پر کچھ مخصوص عرصے کے بارے میں سوال نہیں کیے جاسکتے۔ لہذا مجھے اس بارے میں راہنمائی کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے ٹیکس کنسلٹنٹ ریحان حسن کے کہنے پر فارن کرنسی اکائونٹس کھلوائے ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے گزشتہ روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں جمع کرایا گیا بیان دستاویزات کی کاپیوں سمیت میڈیا کو جاری کردیا اور ساتھ ہی موقف اپنایا کہ والد کی وفات کی وجہ سے وہ نوٹس وصول نہیں کرپائے جس کی وجہ سے بے بنیاد پراپیگنڈا کیا گیا ۔
صحافی اسد علی طور نے سوشل میڈیا پر ایک فوٹو کاپی شیئرکرتے ہوئے لکھا کہ ” جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ نے تمام دستاویزات سمیت بیان میڈیا کو جاری کردیا جو گزشتہ روز انہوں نے ایف بی آر میں جمع کرایا تھا”۔
خاتون نے اپنے بیان میں لکھا کہ”میں بے بنیاد پراپیگنڈا اور ہراساں کیے جانے کا سامنا کررہی ہوں،یہ کہا گیا کہ میں 25 جون کو ایف بی آر کے نوٹسز وصول نہیں کررہی ، اسی روز میرے والد کا انتقال ہوا، پھر اس کو میرے پڑوسیوں اور گھر کے ملازمین کے سامنے تضحیک کے لیے ہمارے گھر کے گیٹ پر لگائے گئے نوٹسز میں بنیاد بنایاگیا۔
مزید بتایا گیا کہ میں جب 9 جولائی کو ایف بی آر بلڈنگ میں ایف بی آر کو جواب جمع کرانی گئی ، میری ریکارڈنگ کی گئی اور اس وقت کہاگیا کہ مجھے ایک چھڑی کی مدد سے تیزی سے چلتی دیکھاگیا، اب مجھے ان کے پراپیگنڈا کی نفی کیلئے میٹل پلیٹس اور سکریوز کے ایکس ریز سامنے لانا ہوں گے جو میری ٹوٹی ٹانگوں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوئے ، ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے بہت دکھ ہوا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ” ایسی چیز یں میڈٰیا میں ہی رپورٹ ہورہی ہیں جو میں نے قیاس کے طورپر اپنے جواب میں کہی ہیں لیکن میں نے جو نہیں کہا اور میرا جواب دبا گیا گیا، میرے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں جواب میڈیا کو جاری کروں۔میں نے چھ صفحات پر مبنی جواب ایف بی آر میں جمع کرایا جو میرے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا روکنے کے لیے کافی ہے ، میری درخواست ہے کہ میری ذاتی معلومات اور اکائونٹس کی تفصیلات عوام کیساتھ شیئر نہ کریں لیکن سچ تک پہنچنے کے لیے میرے جواب کا متن عوام تک پہنچائیں “۔
سرینا عیسیٰ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ مجھے مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے اور میری تضحیک کی جارہی ہے جبکہ میں جھوٹے پروپیگنڈے کا سامنا بھی کررہی ہوں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ ہسپانوی (اسپینش) زبان میں زرینہ کو ‘سرینا’ لکھا جاتا ہے۔
سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ یہ کہا گیا کہ میں نے 25 جون کو ایف بی آر کا نوٹس موصول نہیں کیا حالانکہ اسی روز میرے والد کا انتقال ہوا، جس کے بعد اس جھوٹے بہانے کو میرے گھر کے گیٹ پر نوٹس چسپاں کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تاکہ میرے گھر کے اسٹاف اور پڑوس میں موجود ہر شخص کے سامنے میری تزلیل کی جاسکے۔
اپنے بیان کے آخر میں جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ میں ایف بی آر کو دیے گئے 6 صفحات پر مشتمل اپنے جواب کو منسلک کر رہی ہوں، جو میرے خلاف شروع کیے گئے جھوٹے پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے کافی ہے۔
سرینا عیسیٰ نے درخواست کی کہ میری ذاتی معلومات اور میرے اکاؤنٹ کی تفیصلات عوام میں شیئر نہ کی جائیں لیکن سچ کو سامنے لانے کے لیے میرے جواب کے مندرجات عوام کے سامنے رکھے جائیں۔
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے آف شور جائیدادوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے 9 جولائی کو اسلام آباد زون میں کمشنر آف ٹیکسیشن کو تحریری جوابات جمع کرائے تھے۔
یہ مدنظر رہے کہ سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ سرینا عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں خود کو اور اپنے 2 بچوں کو جاری کردہ 3 نوٹسز کے تحریری جوابات جمع کرائے تھے۔
عام طور پر ٹیکس سے متعلق کارروائیوں میں ٹیکس کنندہ کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی اور وکلا یا ای میل یا کیس کی پیروی کی جاسکتی ہے، تاہم سرینا عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں جوابات جمع کرائے۔
یہ مدنظر رہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں کی 3 جائیدادوں کی خریداری اور ان کے ذرائع سے متعلق وضاحت طلب کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
تاہم 3 نوٹسز موصول نہ ہونے کے بعد اے ای او آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائش گاہ کے باہر 3 نوٹسز چسپاں کردیے تھے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیق کا دائرہ کار صرف برطانیہ میں موجود 3 جائیدادوں تک محدود رکھا ہے، یہ جائیدادیں 2003 سے 2013 کے درمیان خریدی گئی تھیں۔
پہلی جائیداد سرینا عیسیٰ کے نام پر 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور بیٹے ارسلان فائز عیسیٰ کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی۔
علاوہ ازیں تیسری جائیداد 2 لاکھ 70ہزار پاؤنڈ میں سرینا عیسیٰ اور ان کی بیٹی سحر عیسیٰ کے نام پر خریدی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 19 جون کو عدالت عظمیٰ نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو 13 ماہ بعد کالعدم قرار دیتے ہوئے جائدیدادوں سے متعلق معاملے کو ایف بی آر کو بھیج دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے تھے اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔
حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔
جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔
نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔
کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔
سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔
بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔
بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے آف شور جائیدادوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اسلام آباد زون میں کمشنر آف ٹیکسیشن کو تحریری جوابات جمع کرادیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔
سرینا عیسیٰ، کمشنر آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن (اے ای او آئی) زون اسلام آباد ذوالفقار خان کے دفتر پہنچیں جو آف شور ٹیکسیشن کے معاملات دیکھتے ہیں۔
انہوں نے ذاتی حیثیت میں خود کو اور اپنے 2 بچوں کو جاری کردہ 3 نوٹسز کے تحریری جوابات جمع کرائے۔
عام طور پر ٹیکس سے متعلق کارروائیوں میں ٹیکس کنندہ کی موجودگی لازمی نہیں ہوتی اور وکلا یا ای میل یا کیس کی پیروی کی جاسکتی ہے، تاہم سرینا عیسیٰ (زرینہ) نے ذاتی حیثیت میں جوابات جمع کرائے۔
خیال رہے کہ ہسپانوی زبان میں زرینہ کو ‘سرینا’ لکھا جاتا ہے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 176 کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں کی 3 جائیدادوں کی خریداری اور ان کے ذرائع سے متعلق وضاحت طلب کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔ مذکورہ سیکشن ٹیکس کنندہ کو اثاثہ جات سے متعلق اپنی پوزیشن کی وضاحت دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق اب کمشنر آفس تحریری جوابات کو اسکروٹنائز کریں گے، انہوں نے بتایا کہ جوابات کی حیثیت کو 3 سے 4 دن میں کلیئر کیا جائے گا۔ ذرائع نے مزید کہا کہ ناکافی معلومات کی صورت میں اسی سیکشن کے تحت کیس میں وضاحت کا مزید موقع دینے کا امکان ہے۔ ایک اور ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مزید نوٹس کا معاملہ تحریری جوابات کے مندرجات کی نوعیت پر انحصار کرتا ہے۔
شوکاز نوٹس سے متعلق ذرائع نے کہا کہ وہ آئندہ چند روز میں کلیئر کردیا جائے گا۔ خیال رہے کہ 3 نوٹسز موصول نہ ہونے کے بعد اے ای او آئی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رہائش گاہ کے باہر 3 نوٹسز چسپاں کردیے تھے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے تحقیق کا دائرہ کار صرف برطانیہ میں موجود 3 جائیدادوں تک محدود رکھا ہے، یہ جائیدادیں 2003 سے 2013 کے درمیان خریدی گئی تھیں۔ پہلی جائیداد سرینا عیسیٰ کے نام پر 2004 میں 2 لاکھ 36 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی، دوسری جائیداد 2013 میں ان کے اور بیٹے ارسلان فائز عیسیٰ کے نام پر 2 لاکھ 45 ہزار پاؤنڈز میں خریدی گئی تھی۔ علاوہ ازیں تیسری جائیداد 2 لاکھ 70ہزار پاؤنڈ میں سرینا عیسیٰ اور ان کی بیٹی سحر عیسیٰ کے نام پر خریدی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔ حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔ جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔ نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔ سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔ سماعت کے آغاز سے قبل میڈیا میں یہ اطلاع لیک کی گئی تھی کہ سرینا عیسیٰ نوٹسز کا جواب دینے کے لیے ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز جائیں گی۔ دریں اثنا کیس کی سماعت کے وقت تمام میڈیا پرسنز ایف بی آر ہیڈکوارٹرز پہنچ گئے تھے۔ حیران کن طور پر ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں کوئی بھی اس پیشرفت سے آگاہ نہیں تھا اور بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ سماعت ایف بی آر کی عمارت سے کچھ کلومیٹر دور محکمہ وقف املاک کی عمارت میں ہوگی۔ تاہم غلط اطلاع کس نے پھیلائی اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان موصول نہیں ہوا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔ صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے
بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔ بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔ یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔
EXCLUSIVE: Wife of #JusticeQaziFaezIsa appeared before #FBR. Detail story coming shortly!#Pakistan #SupremeCourt pic.twitter.com/mKhN4BFuM0
مذکورہ بیان ٹوئٹر پر شئر کرتے ہوئے صحافی آصف بشیر چوہدری نے لکھا کہ! کیا ریاست مدینہ کے وزیراعظم اور وزراء ایک خاتون کوبتائیں گےکہ انہوں نےاورانکی بیگمات نےکتنا ٹیکس دیا؟
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا بیان : ہم نے آف شور کمپنی کے بجائے اپنے نام پر مکان خریدے عمران خان اور انکے ساتھی جائیدادوں کی ملکیت آف شور کمپنی سے
چھپانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
سینئر صحافی تمغہ امتیاز ہولڈر ارشد شریف صاحب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی ایف بی آر کو جمع کرائی گئی ٹیکس ریٹرن کی کاپی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انھوں
نے اپنی لندن سمیت تمام جائیداد کی تفصیلات اور ٹیکس ریٹرنز جمع کرادی ہیں۔ اب آگے کیا ہوگا؟