اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی سینیٹ میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ کرپشن اور شدت پسندی کا آپس میں گٹھ جوڑ ضرور ہوگا لیکن اس گٹھ جوڑ سے متعلق شواہد ابھی سامنے نہیں آئے لیکن ریاستی اور دہشتگرد تنظمیوں کے گٹھ جوڑ کے ثبوت موجود ہیں جن کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
کوئٹہ اور مردان حملوں سے متعلق سیینٹ کے اجلاس میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ جب کوئٹہ میں طالبان کے امیر ملا اختر منصور امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تو اس کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جو دہشت گرد تنظیموں اور ریاستی اداروں کا گٹھ جوڑ ثابت کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کالعدم شدت پسند تنظیموں نے پاکستان کے دارالحکومت میں آ کر اجلاس کیا جو ریاستی اداروں کے گٹھ جوڑ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ افغانستان کے بارے میں پاکستان کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے جس کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔
حکمراں اتحاد میں شامل جمیعت علمائے اسلام فصل الرحمٰن گروپ کے سینیٹر حافظ حمد اللہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کالعدم تنظمیں کس نے بنائیں اور اُنھیں روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندی کے کسی واقعے کے چند منٹوں کے بعد یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کارروائی بھارتی حفیہ ادارے را کی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کوئٹہ واقعے کے رونما ہونے کے پانچ منٹ پہلے ہمارے خفیہ ادارے اس بات کا سراغ کیوں نہیں لگاتے کہ بھارت پاکستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغانستان کی ایجنسی این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ جمہوری ادوار میں نہیں بلکہ فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں بنا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ایوان کو بتایا جائے کہ پرویز مشرف غدار ہے کہ محب وطن۔
حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ کون ہے جو حکومت کو آزاد پالیسی نہیں بنانے دیتا اور اگر کوئی اُن قوتوں کا نام لے لے تو اُنھیں غدار کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر نے مطالبہ کیا کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے متعلق حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ پاکستان کن وجوہات کی بنا پر دو لخت ہوا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی حان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد صرف فوج کر رہی ہے حکومت نہیں۔ اُنھوں نے ملک کے خفیہ اداروں کی کارکردگی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے پاکستان مخالف خفیہ ادروں کے متعدد منصوبے ناکام بنائے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ فوج اور سویلین قیادت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو ایسا کرنے کی کوشش کرے گا وہ ملک کاخیر خواہ نہیں ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے دعویٰ کیا کہ کوئٹہ اور مرادن میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا سراغ لگا لیا گیا ہے تاہم اُنھوں نے اس کی مذید تفصیل نہیں بتائی۔