تحریر : روہیل اکبر
گذشتہ روز ایک بار پھر بہت سے نابینا افراد اکٹھے ہو کر پنجاب اسمبلی کے باہر جمع ہوگئے جہاں پر انہوں نے حکومتی قانون کی ایسی تیسی کرکے اپنا قانون نافذ کردیا ان نابینا افراد کے قانون کے سامنے حکومتی قانون بے بس ہو گیا اسی دوران پنجاب اسمبلی میں عوام کے خادموں کا اجلاس بھی چل رہا تھا جہاں پر انہوں نے اپنے قانون کے مطابق اپنی تنخواہوں اور مراعات میں 100 فیصد اضافے کا بل بھی منظور کرلیا
اب یہ عوامی خدمتگار پہلے سے زیادہ عوام کی خدمت کرسکیں گے مگر ان قانون بنانے والوں نے نابینا افراد کے ڈر سے پنجاب اسمبلی کا مرکزی دروازہ اندر سے بند کرکے تالا لگا دیا تاکہ باہر جو اپنا قانون نافذ کیے بیٹھے ہیں کہیں وہ اندر آکر ان عوامی نمائندوں کے قانون کی ایسی تیسی نہ پھیر دیں۔
مال روڈ لاہور پر ہر طرح کے جلسے جلوس ،دھرنے اور احتجاج پر پابندی لگی ہوئی ہے مگر جس نے بھی اپنا حق لینا ہوتا ہے سب سے پہلے وہ اس پابندی والے حکومتی قانون کو مال پر الٹا لٹکا کر اسکا مذاق اڑاتا ہے پھر اسکے بعدوہاں پر موجود افراد اپنے حقوق کے لیے اپنا اپنا قانون جاری کردیتے ہیں مال روڈ لاہور اور بلخصوص فیصل چوک جہاں پر ایک طرف پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ ہے تو دوسری طرف واپڈا ہاؤس ہے اور یہی سے مزنگ،گنگا رام ،سیکرٹریٹ ،ہائیکورٹ ،جی پی او ،اورریلوے اسٹیشن سمیت مختلف اطراف کو راستے جاتے ہیں
اس چوک پر دھرنا دیکر بیٹھنے سے یہ تمام اہم راستے بند ہوجاتے ہیں اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی لمبی لائینں لگ جاتی ہے یہاں پر احتجاج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ میڈیا فورا کوریج کرنا شروع کردیتا ہے اور بات بھی فورا حکومتی ایوانوں تک پہنچ جاتی ہے اور پھر کچھ حکومتی نمائندے ان احتجاج کرنے والوں کو طفل تسلی اور کچھ کا کام کرکے یہاں سے چلتا کردیتے ہیں
مگر کامیاب وہی افراد ہوتے ہیں جو حکومتی قانون کو روندتے ہوئے اپنے قانون کے مطابق مال روڈ کو بلاک کردیں اسی طرح نابینا افراد نے بھی کیا اور مال روڈ بلاک کردی اور بلاآخر نابینا افراد نے اپنے قانون اور قاعدے کے مطابق حکومت سے اپنے مطالبات منظور کروالیے کچھ افراد کو فوری طور پر عارضی بنیادوں پر نوکری مل گئی اور کچھ نابینا افراد سے وعدہ کرلیا گیا اورآخر کار سب ہی کامیاب ہوگئے کیونکہ حکومت نے ان کا دھرنا ختم کروادیا نابینا افراد کو نوکریاں مل گئی۔
ہمارے ملک میں ہر فرد ،ادارے اور سوسائٹی نے اپنا اپنا قانون بنا رکھا ہے منشیات فروشوں اور جواریوں نے اپنے قانون بنارکھے ہیں غریب کے لیے قانون اور ہے امیر کے لیے اور تاؤٹ اور مفاد پرستوں کا قانون اور ہے جبکہ ایماندار اور محنتی کے لیے قانون اور ہے سفارشی اور راشی کا قانون اور ہے تو میرٹ پر یقین رکھنے والے کے لیے قانون اور ہے یہاں پر ہر موقعہ اور مطلب کے لیے قانون سب کا اپنا اپنا ہے ہمارے دیہات میں جاگیر داروں کے اپنے قانون ہیں سرمایہ داروں کا اپنا قانون ہے مگر جو قانون اندھوں کا ہے وہ سب پر بھاری ہے
اسی لیے تو ضرب المثل عام ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے یا جس کی لاٹھی اسکی بھینس یعنی جسکے پاس طاقت ہے تو قانون بھی پھر اسی کا ہی چلتا ہے ایسا تب ہوتا ہے جب حکومت کی گرفت اپنے اداروں پر کمزور ہو مفاد پرست ٹولہ اور انکے حواری اقتدار میں شامل ہو حق دار کو اسکا حق نہ دیا جارہا میرٹ کے نام پر حکومتی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہو اراکین اسمبلیوں کو گھوڑے قرار دیکر انکی خریدوفروخت کرنے کے لیے سرعام بولیاں لگائی جارہی ہوں غریب انسان اپنی غربت سے تنگ آکر خود کشیاں کررہے ہوں لالچیوں اور سفارشیوں کو عہدوں کی بندر بانٹ کی جارہی ہوتھانوں میں کماؤں ملازمین کو تعینات کیا جارہا ہو
عوام کو صرف وعدوں پر ٹرخا کر اپنے مقاصد پورے کیے جارہے ہواور سیاسی جماعتوں کے دہشت گرد گروپوں سے ڈیل کی جارہی تو پھر ہر کمزور فرد نے زندہ رہنے کے لیے اپنا ہی قانون بنا ناہے جس طرح قانون اندھا ہوتا ہے اورپھر اندھوں نے اپنا قانون بنا کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا یہ وہی نابینا افراد ہیں جنہیں چند ماہ قبل حکومت نے اپنی پولیس کے زریعے کلب چوک مال روڈ پر نشان عبرت بنا دیا تھا مار مارکر ان نابینا افراد کو وہاں سے بھگا دیا مگر گذشتہ روز پھر قانون کی قانون سے ٹکر ہوگئی مگر اس بار اندھے قانون کی بجائے نابینا افراد کے قانون نے کامیابی حاصل کر لی یہ وہ افراد ہیں جو ہم سے زیادہ کام کرتے ہیں
صرف ایک چھڑی کے زریعے بغیر کسی کے سہارے اپنی زندگی کی جنگ لڑتے رہتے ہیں ان کے حوصلے دیکھ کر بعض اوقات تو ہم جیسے بینا افراد حوصلہ پکڑتے ہیں کہ اپنے حقوق کی جنگ کیسے لڑنی ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی بجائے ملک میں فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کروائے اور یہ فنڈز ان کونسلرز کے زریعے استعمال کیا جائے جو اپنے اپنے علاقے کے مسائل کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں اور عوام کے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہونا شروع ہو جائیں گے پھر شائد اپنے اپنے قوانین میں بھی کمی آجائے۔
تحریر : روہیل اکبر