ترقی پزیر ممالک کے لئے اور خاص طور پر پاکستانیوں کے لئے الیکشن ایک اکسیر کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ الیکشن قوم کے سارے مسائل حل کر دیتا ہے۔ عوام کو الیکشن الیکشن کھیلنے کی لت پڑی ہوئی ہے اور یہ لت اکثر ٹانگ ہوتی ہے جو الیکشن کے بعد ہمیشہ عوام کی کمر پر پڑتی ہے۔
ادھر حکومت نے الیکشن کا نام لیا ادھر پاکستانیوں کے تمام مسائل حل، نہ کسی کو اپنی بیماری یاد نہ ہی دوسرے مسائل۔ اب ہر کوئی اپنے پسندیدہ ٹینٹ یعنی تنبو میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ تنبو یہاں وضاحت طلب ہے۔
ایسے تنبو کی تلاش میں ہر طبقہ کے لوگ نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ اپنی اپنی پارٹی گروپ یا خوشامد پسند لیڈر کے تنبو میں آ جاتے ہیں۔ سب کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ جس کے ساتھ ملیں اسے ہی جیتنے والی پارٹی کہ اور بنا سکیں، اپنے نظریات کی پرچار کر سکیں، اپنا عہدہ اور کرسی پکی کر سکیں اور عوام جو کہ غریب عوام ہی ہوتی ہے ان دنوں بریانیوں سے جھولیاں بھرنے کی کوشش کر سکے۔ بعض مرتبہ پولیس کے لاٹھی چارج سے جھولی خالی بھی ہو جاتی ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ پیٹ ضرور بھر جاتا ہے بجلی آئے نہ آئے، کسی کو یاد نہیں۔ گیس ملے یا نہ ملے، کسی کو پروا نہیں۔ بس تنبو لگتے رہیں، دیگیں پکتی رہیں اور الیکشن ہوتے رہیں۔
عوام کو ایسے لوگوں پر سخت غصہ آتا ہے جو الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں میں ان کے اس عمل سے تشویش کی لہر دوڑجاتی ہے کہ کہیں الیکشن ملتوی ہی نہ ہو جائیں۔ وہ جو پیٹ پر تیل کی مالش کررہے تھے کہ کھابوں سے کشتی ہونے والی ہے, وہ جو وزارت کے خواب دیکھ رہے تھے اور وہ جو بڑی کرسی حاصل کرنا چاہتے تھے ایک دم حیران رہ جاتے ہیں کہ اب کیا ہو گا؟ ہمارے عزائم کیسے پورے ہوں گے اگر الیکشن نہ ہوئے تو!
لیڈر تقریریں کرتے ہیں۔ عوام سنتے ہیں کیوں کہ جلسے میں آنے، نعرے لگانے اور کھانے کی ادائیگی ہو چکی ہوتی ہے اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ جلسہ جلدی جلدی ختم ہو کہ انہوں نے دوسری پارٹی سے بھی بیعانہ لیا ہوتا ہے۔
صحافی کوشش کرتے ہیں کہ جس سے رقم لی ہے اس کا حق ادا ہوجائے۔ الیکشن میں پیسے بولتے رہتے ہیں اور صحافت دم سادھے اپنے ضمیر کو چپ کراتی رہتی ہے کہ کہیں یہ بول نہ پڑے۔ جس نے جس کا نمک کھایا ہوتا ہے وہ اسی کے حق میں ہی سارے ووٹ گردانتا رہتا ہے۔ اس کا حق وہ نتائج کے بعد بھی ادا کرتا رہتا ہے اور جیت کو اپنے ذمے اور ہار کو اپنے محسن کے کھاتے میں ڈالتا رہتا ہے۔ لیڈر اپنی پالیسیاں بیان کرتے رہے۔ دوسرے لیڈروں کی گت بناتے رہتے ہیں الزام تراشیاں کرتے ہیں اور اپنے تنبو کے صحافی سے بھی یہی کچھ کراتے ہیں تاکہ لوگ اسے ووٹ دیں مگر عوام کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں وہ تو اپنے ہی تنبو کی تلاش میں سارا دن سرگرداں رہتے ہیں کہ صبح اس تنبو میں کرنی ہے اور شام اس تنبو میں۔
ہمارے سیاستدان بھی عوام کی اس رگ سے پوری طرح واقف ہیں اور کھلم کھلا کھلاتے ہیں۔ انہیں بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ دو تین ہفتے کھلانے سے پانچ سال کھانے کو ملیں گے او پھر جو وہ کھاتے ہیں، سڑکیں، پلازے، سوئی گیس، بجلی، ٹیکس اور ترقیاتی فنڈز، وہ عوام کو کھلانے سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے تو ان دنوں تنبو کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔
سیاست دان جیتنے والے تنبو میں جانے کے لئے لاکھوں کی ٹکٹ خریدتے ہیں۔ school of thought والے لاکھوں ڈالر ڈونیشن دیتے ہیں۔ کرسی پانے والے تنبو میں کھابوں کا انتظام کرتے ہیں اور عوام اچھے کھابے والے تنبو کے طواف کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو کیوں نہ ہو؟
چینی، آٹا، دالیں، چاول، بجلی، گیس، تعلیم، بل ایسے گھر کے اخراجات ہیں جو بمشکل ہی پورے ہو پاتے ہیں اور کھابے تو صرف وہی کھاتے ہیں جو ترقیاتی فنڈز جاری کرتے ہیں ان کو خرچ کراتے ہیں یا ان کا حساب رکھتے ہیں باقی فاقے ہی کاٹتے ہیں۔
شاید اسی لئے لوگ جمہوریت کے حق میں ہیں کہ اس میں الیکشن تو ہوتے ہیں، ٹینٹ تو لگتے ہیں او ر دیگیں تو پکتی ہیں خواہ چند روز کے لئے ہی سہی۔ موجیں تو موجیں ہی ہوتی ہیں ناں چاہے پل بھر کی ہی کیوں نہ ہوں۔