احتساب عدالت اسلام آباد میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کیس کی سماعت ہوئی، جس میں شریف خاندان میں بھاری رقوم کی باہمی لین دین کا ریکارڈ پیش کردیا گیا، پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے کہا کہ گلف اسٹیل ملز کے قیام اور فروخت سے متعلق طارق شفیع کے بیان اور 2 بیانات حلفی میں تضادات سامنے آئے، وہ دستاویزات دینے میں بھی ناکام رہے۔ وکیل صفائی خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ العزیزیہ ریفرنس میں پیش کی گئی دستاویزات غیر مصدقہ اور غیرمتعلقہ ہیں، واجد ضیا کا بیان سنی سنائی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں ۔احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت، پانامہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے بیان کا دوسرا دن، شریف خاندان میں بھاری رقوم کی باہمی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ پیش، ان میں سے بعض ٹرانزیکشنز کی تفصیل کچھ یوں ہے ۔
9 فروری 2015 : نواز شریف نے 68 ملین روپے مریم نواز کے اکاؤنٹ میں بھیجے
15 مارچ 2015 :نواز شریف نے 13 ملین روپے مریم نواز کے اکاؤنٹ میں بھیجے
13 جون 2015 : نواز شریف نے مریم نواز کو 12 ملین روپے منتقل کیے
27 مارچ 2016 : نواز شریف نے مریم نواز کو 4 کروڑ روپے منتقل کیے
10 مئی 2016 : نواز شریف نے مریم نواز کے اکاؤنٹ میں تقریباً پونے 4 کروڑ روپے بھیجے۔
واجد ضیاء نے کہا کہ گلف اسٹیل ملز کے قیام اور فروخت سے متعلق طارق شفیع کے جے آئی ٹی کو بیان اور سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے2بیانات حلفی میں تضادات ہیں، طارق شفیع گلف اسٹیل ملز کے قرض سے متعلق کوئی دستاویزات بھی پیش نہ کر سکے، قطری کو 12 ملین درہم دینے کا بھی کوئی ثبوت نہیں دیا۔خواجہ حارث نے اعتراض اٹھایا کہ گواہ کا یہ بیان تفتیشی رپورٹ کا حصہ ہے اور یہ قابل قبول شہادت نہیں، طارق شفیع عدالت کے سامنے گواہ ہیں اور نہ ہی ملزم ، حسین نواز ، حسن نواز اس وقت عدالت کے سامنے نہیں جبکہ مریم نواز اس ریفرنس میں گواہ یا ملزم نہیں، لہٰذا ان کی دستاویزات کا حوالہ عدالتی ریکارڈ پر نہیں لایا جاسکتا۔وکیل صفائی نے کہا واجد ضیاء کی گواہی تجزیے، رائے اور سنی سنائی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کہا ہم آج بیان مکمل کر سکتے ہیں لیکن یہ ہونے نہیں دے رہے، خواجہ حارث کے جو اعتراضات یا سوالات ہیں ، جرح کے دوران بات کر لیں، خواجہ حارث نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے کہا تھا واجد ضیاء کا تینوں ریفرنسز میں بیان ایک ہی بار ریکارڈ کر لیں، اعتراض اٹھانا ہمارا حق ہے ورنہ ہم عدالت میں کیوں ہیں، اس کے بعد مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔