تحریر : روہیل اکبر
آجکل حکومت ،اپوزیشن جماعتوں اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان دو اہم معاملات بڑی سنجیدگی سے چل رہے ہیں پہلا معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کو قومی اسمبلی سے فارغ کرنے کا زیر بحث ہے جس پر حکمران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی متحد ہو کر ان اراکین کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جو بقول مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے آئینی طور پر فارغ ہوچکے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، پارٹی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین اور دیگر دو افراد کو اْن کے عہدوں سے ہٹانے اور پارٹی کی رکنیت ختم کرنے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے اسی سلسلہ میں گذشتہ روز جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات بھی کی اور بعد میں حامد خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ ان چار رہنماوں کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کے طریقہ کار طے کرنے کے لیے پارٹی کے چیئرمین سے مزید مشاورت کی جائے گی
اسی سلسلہ میں بتاتا چلوں کہ عمران خان نے پارٹی انتخابات کے دوران شکایات کے ازالے کے لیے جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جس نے اس بات کا تعین کرنا تھا کہ جن جن افراد پر پارٹی الیکشن کے دوران جو جو الزامات لگے تھے کیا وہ درست تھے یا محض الزامات ہی تھے ان تمام الزامات کی غیر جانبداری انکوائری کے بعد جسٹس ریٹارئرڈ وجیہہ الدین کمیشن نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ پارٹی کے جنرل سیکریٹر ی جہانگیر ترین اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے پارٹی میں اپنے عہدے بچانے کے لیے قواعدو ضوابط کی خلاف ورزیاں کرنے کے ساتھ ساتھ ووٹ لینے کے لیے پیسوں کا استعمال بھی کیا ہے
اس لیے ان سمیت چار افراد کو پارٹی کے عہدوں سے فارغ کردیا جائے تاہم کمیشن کی ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہواکیونکہ جہانگیر ترین صنعت کار بھی ہیں اور اْن کا اپنا جہاز بھی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے استعمال میں بھی رہتا ہے ۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کے ساتھ ہیں اور پارٹی میں قبضہ گروپ کے ساتھ نہیں ہیں جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے عدالتی کمیشن کے فیصلوں میں کچھ سقم ضرور موجود ہیں گذشتہ روز ہی مولانا فضل الرحمنٰ نے وزیراعظم نواز شریف سے تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر ملاقات کی ہے
دوسری جانب چیف الیکشن کمشنر نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کے نتائج کے حوالے سے لکھے گئے خط پر الیکشن کمیشن کے ارکان سے مشاورت کی ہے جس کے بارے میں بھی جلد فیصلہ کر لیا جائے گا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کے چیف الیکشن کمشنر کو ریٹرنگ افسران کے خلاف فوجداری مقدمات درج کروانے کی استدعا کی ہے ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف سے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمنٰ نے ملاقات ہے جس میں وزیر اعظم نے اْن سے پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے حوالے سے قرارداد واپس لینے کی درخواست کی ہے ۔مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ وہ قرارداد پر آئین کے مطابق فیصلہ چاہتے ہیں آئین پر عمل درآمد ہر پاکستانی کی خواہش ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوسکا
ہر حکمران نے آئین کو موم کی گڑیا سمجھتے ہوئے اسکے ساتھ اپنی مرضی سے کھیلا جہاں اپوزیشن کو دبانے یا مخالفوں کا رگڑا نکالنے کی بات آئی وہیں پر آئین کو درمیان میں گھسیٹ لایا گیا اور اس پر عمل کروانے کی کوشش شروع کردی گئی جہاں حکمران اور اشرافیہ کے مفادات کی بات آئی وہیں پر آئین کو ٹشو پیپربنا دیا گیاقیام پاکستان سے لیکر آج تک اگر کسی ایک حکمران نے بھی آئین اور قانون پر عملدرآمد کیا ہوتا تو آج پاکستان ایک پر امن اور جنت نظیر مثالی خطہ ہوتا لوگ یہاں آنے کے لیے ترستے کیونکہ اللہ تعالی نے یہاں ہر موسم ہر رنگ اور ہر نعمت عطا کررکھی ہے مگر بدقسمتی سے آج تک آنے والے سبھی حکمرانوں نے اپنا الو سیدھا کیا
نیب میں سیاستدانوں کے خلاف چلنے والے کیس کیا اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ یہاں پر غربت کے ہاتھوں مجبور ایک روٹی چرانے والا جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور ملک وقوم کا اربوں روپے لوٹ کر ہضم کرنے والے اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں اگر ان ڈاکووں کے خلاف آئین کچھ نہیں کرستا تو پھر اسمبلیوں سے غیر حاضر رہنے والے اور استعفے دیکر واپس آنے والے اور پارٹی الیکشن میں پیسے کے زور پر اوپر آنے والوں کے خلاف کیسا آئین کہاں کا قانون یہاں پرتو آئین اور قانون اسی کا غلام ہے جسکے پاس طاقت ہے ایک محاوہ مشہور ہے کہ جسکی لاٹھی اس کی بھینس کو اگر یوں لکھ دیا جائے کہ جسکی لاٹھی اسکا آئین تو بھی غلط نہیں ہوگا نہ جانے کب یہ لاٹھی ٹوٹے گی اور ہمارا آئین اور قانون ان سیاسی اور معاشی دہشت گردوں سے آزاد ہوگا۔
تحریر : روہیل اکبر
03466444144