اسلام آباد(ایس ایم حسنین) پاکستان کی ممتاز ایڈووکیٹ اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم حنا جیلانی کو اسٹاک ہوم میں سال 2020 کے ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کی حامی اور شہری و انسانی حقوق کے لیے سرگرم حنا جیلانی نے اسٹاک ہوم میں سال 2020 کا ہیومن رائٹس انعام حاصل کرنے پر مُسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس موقع پر سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ مجھے میری اپنی برادری یعنی قانون سازوں اور قانون دانوں نے اس اعزاز کے قابل سمجھا۔‘‘ حنا جیلانی کو ہیومن رائٹس ایوارڈ ملنے پر پاکستان کے انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک معروف شخصیت آئی اے رحمان نے کہا،حنا جیلانی کو ملنے والا ایوارڈ نہ صرف ہیومن رائٹس کے لیے سرگرم برادری بلکہ پورے ملک کے لیے باعث فخر ہے۔‘‘حنا جیلانی کا کہنا تھا کہ یہ صرف میرے لیے نہیں بلکہ پاکستان کی ہیومن رائٹس کے لیے آواز بلند کرنے والی پوری برادری کے لیے اعزاز و مسرت کی بات ہے۔ کیونکہ میں اس کا حصہ ہوں۔‘‘غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انسانی حقوق کی کارکن اور عاصمہ جہانگير کی بہن حنا جيلانی نے کہا کہ عاصمہ کو اس سے بہتر انداز ميں خراج عقيدت پيش نہيں کيا جا سکتا کہ ملک ميں انسانی حقوق کی بہتری و عورتوں کے حقوق کے ليے جو کام انہوں نے شروع کيا تھا، اُسی کو آگے بڑھايا جائے۔ کشور مصطفیٰ نے حنا جیلانی کے ساتھ یہ گفتگو گزشتہ برس بون میں کی تھی۔حنا جیلانی نے مزید کہا،میں چاہے ملک کے اندر رہوں یا ملک سے باہر میرا میری برادری سے بہت گہرا رشتہ ہے اور میں ہمیشہ اس کا حصہ رہوں گی اور اپنے اس مقصد کے لیے ہر جگہ سے اور ہر وقت کام کرتی رہوں گی۔‘‘ انسانی حقوق کا یہ ایوارڈ اسٹاک ہوم میں قائم سویڈش بار ایسوسی ایشن، انٹر نیشنل بار ایسوسی ایشن آئی بی اے اور انٹرنیشنل لیگل ایسوسی ایشن کُنسورشیم آئی ایل اے سی کی معاونت سے اوران کی جانب سے مشترکہ طور پر دیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ حنا جیلانی گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے اور اس برادری کے ساتھ وابستہ ہیں۔ حنا جیلانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ معاشرے میں ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی ایک ایسی سرگرم خاتون ہیں، جنہوں نے کسی سیاسی یا دیگر مشکلات کے سامنے کبھی ہار نہیں مانی۔1987ء میں اپنی بڑی بہن مرحومہ عاصمہ جہانگیر اور چند دیگر ترقی پسند وکلاء کے ساتھ مل کر انہوں نے پاکستانی خواتین کو قانونی معاونت فراہم کرنے والی پہلی ‘خواتین لاء کمپنی‘ اے جی ایچ ایس قائم کی تھی، جیسے ایک تاریخ ساز اقدام قرار دیا جاتا ہے اور یہ عالمی سطح پر بھی ان کی خدمات کو تسلیم کیے جانے کی ایک وجہ ہے۔ اسی سال یعنی 1987ء میں ہی انہوں نے ‘ویمن ایکشن فورم‘ ڈبیلو اے ایف قائم کیا۔ اس کا مقصد معاشرے میں خواتین کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں اور امتیازی قوانین کو چیلنج کرنا تھا۔1986ء میں حنا جیلانی نے پاکستان کا پہلا لیگل ایڈ سینٹر قائم کیا۔ اُسی سال ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان قائم ہوا، جس کے بانی اراکین میں وہ بھی شامل تھیں۔ 1990ء میں حنا جیلانی نے ‘دستک‘ نامی ایک پناہ گاہ کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے کا مقصد صنفی تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو مفت قانونی مشورے اور مدد فراہم کرنا تھا نیز ایسی خواتین کو یہاں پناہ بھی فراہم کی جاتی تھی۔