میلبرن: آسٹریلیا کے قریب نیم خودمختار جزائر میں سے ایک جزیرے پر چکی نما چونے کے گول پتھروں کو اب تک رقم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ان جزائر میں سے ایک کا نام یاپ ہے جہاں صدیوں سے اب تک گول پتھروں کو رقم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے تاہم کوئی نہیں جانتا کہ اس کی وجہ کیا ہے اور یہ سلسلہ کب شروع ہوا ہے؟
یاپ جزیرہ امریکا کے زیرِ انتظام ہے اور یہاں باضابطہ طور پر ڈالر استعمال کیا جاتا ہے لیکن مقامی افراد اب بھی چونے کے پتھر (لائم اسٹون) سے بنی گول ٹھیکریوں کو کرنسی کے طور پر خرچ کررہے ہیں جن کا قطر 30 سینٹی میٹر سے ساڑھے تین میٹرتک ہے۔ ان میں سے بعض کا وزن ایک چھوٹی کار کے برابر ہے۔ بہت بڑے پتھریلے سکوں کی طرح یہ کرنسی ہوٹلوں اور جنگلات اور دیگر عمارتوں کے باہر موجود ہیں اور اس کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ تاہم دیہاتیوں نے 13000 پتھریلے سکوں کو بینکوں میں بھی رکھا ہوا ہے۔ ان میں سب سے بڑا پتھر سب سے قیمتی تصور کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف اوریگون میں بشریات اور مائیکرونیشیئن جزائر کے محقق ڈاکٹر اسکاٹ فزپیٹر کا کہنا ہے، ’یہ واضح نہیں کہ پتھر بطور پیسہ کب استعمال ہوا لیکن شاید اسے دریافت کرنے والے کسی مہم جو نے یہاں موجود چونے کے پتھروں کو ایک گول تھال کی شکل دی ہوگی تاکہ وہ اسے پہیے کی طرح گھماسکے۔ اس کے بعد پورے یاپ پر یہ کرنسی پھیل گئی۔ لوگ اسے تحفے میں دینے لگے اور رفتہ رفتہ یہ کرنسی میں تبدیل ہوگئی اور بڑی طشتری کی قیمت زیادہ لگنے لگی۔
جزیرے کی زبانی تاریخ سے معلوم ہوا ہے کہ ہر پتھر کی کوئی نہ کوئی قیمت ہے، بعض پتھروں کا وزن تو کئی ٹن ہے اسی لیے رقم منتقل نہیں کی جاتی بس اس کے مالکان تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ پتھریلی کرنسی کو جہیز، فصلوں کی انشورنس اور ہنگامی حالات میں اناج کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔