انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سرینگر کی رہائشی 35 سالہ تسلیمہ رؤف کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنے مکان کی بالائی منزل پر ایک شخص کا سایہ دیکھا۔انھوں نے کہا کہ جب تک وہ کچھ کرتیں اس شخص نے ان پر حملہ کر دیا۔ جب انھوں نے مدد کے لیے چیخنے کی کوشش کی تو اس نے ان کا گلا گھونٹے کی کوشش کی اور وہ بیہوش ہو گئيں۔اسی حال میں ان کے شوہر نے انھیں فرش پر پڑا پایا جبکہ ان کے کچھ بال کٹے ہوئے تھے۔
Popular Videos today:
٭ خاتون اینکر نے لائیو شو کے دوران غصے میں اپنے بال کاٹ ڈالے، ویڈیو وائرل
٭ خواتین کی چٹیا کاٹنے کے واقعات، مقبوضہ کشمیر میں ہڑتال
خیال رہے کہ چھ ستمبر کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بال کاٹے جانے کے کم از کم 40 واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں اور اس کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ حالات اتنے نازک ہو گئے ہیں کہ مختصر عرصے کے لیے سکول کالج بھی بند کرنے پڑے۔یہ پہلی بار نہیں کہ چوٹی کاٹنے کے واقعات انڈیا میں شہ سرخیوں میں آئے ہیں۔اس سے قبل اگست میں ریاست ہریانہ اور راجستھان میں 50 سے زیادہ خواتین نے بتایا تھا کہ بیہوشی کے عالم میں ان کی چوٹیاں کاٹ لی گئی تھیں۔
لیکن کشمیر کے انڈیا کے ساتھ نازک رشتے کے پیش نظر ان حملوں نے مختلف صورت اختیار کرلی ہے اور اس کی وجہ سے پرتشدد واقعات رونما ہوئے اور لوگوں نے چوکنے ہو گئے۔اس کے ساتھ ہی سکیورٹی فورسز اور علیحدگی پسند دونوں ہی پر اس کے الزامات لگائے گئے۔ان حملوں کے پیچھے کون ہے اس کے بارے میں علم نہیں۔بیشتر خواتین نے کہا کہ انھیں مار کر بیہوش کر دیا گیا اور جب وہ ہوش میں آئیں تو ان کے بال کاٹے جا چکے تھے۔بعض نے کہا کہ حملہ آور نے ماسک یعنی نقاب پہن رکھا تھا۔یہ خاتون اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ اپنی کٹی ہوئی لٹوں کے ساتھ یہ تصویر کھینچوانے پر آمادہ ہو گئيں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان پر صبح سویرے گھر کے باہر حملہ ہوا۔ ان کا سونے کا ہار چھین لیا گیا لیکن بال کاٹنے والا ان کے بال اپنے ساتھ نہیں لے گيا جیسا کہ دوسرے واقعات میں بھی ہوتا ہے کہ بالوں کو وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں برسراقتدار پارٹی پی ڈی پی کی حلیف اور مرکز میں برسراقتدار پارٹی بی جے پی نے چوٹی کاٹنے والے حملے کا الزام علیحدگی پسندوں پر لگایا ہے۔جماعت کا کہنا ہے کہ ‘یہ علیحدگی پسندوں اور ملک مخالف لوگوں کا امن کو درہم برہم کرنے کا نیا طریقہ ہے۔’ جماعت نے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
سماجی کارکن احسن انٹو نے اس حملے کے خلاف مظاہرے میں شرکت کی۔ ان حملوں کو ‘کشمیری خواتین کی توہین’ کہا جا رہا ہے۔حزب اختلاف نیشنل کانگریس نے ریاستی حکومت کو ‘ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت’ کو تحفظ فراہم کرانے میں ناکام قرار دیا ہے۔یہاں تک کہ جنگجو گروپ حزب المجاہدین نے بھی اس پر اپنی رائے دی ہے اور اسے ‘عسکریت پسندوں کے حملے’ سے نمٹنے کا حکومت ہند کا ایک ‘حربہ’ قرار دیا ہے کہ اس کی وجہ سے مقامی افراد اپنے گاؤں سے گزرنے والے جنگجو کے بارے میں خوف کے مارے انھیں رپورٹ کردیں گے۔
عام طور پر مظاہرے سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ پر ختم ہوتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے دباؤ کے درمیان کشمیر پولیس نے حملہ آور کو پکڑنے کے لیے ایک ‘خصوصی تفتیشی ٹیم’ بنائی ہے۔انھوں نے اس کے پکڑنے والے کو چھ لاکھ روپے انعام کا بھی اعلان کیا ہے لیکن علیحدگی پسند سکیورٹی فورسز پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے انڈیا سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو ‘ڈرانے کے لیے’ ان حملوں کا منصوبہ بنایا ہے۔ریاست بھر میں نوجوانوں نے نگرانی کرنے والے گروپ بنائے ہیں جس کے نتیجے میں بعض المناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔
ایک واقعے میں نگرانی کرنے والے ایک گروپ نے 70 سالہ شخص کو چوٹی کاٹنے والا شخص سمجھ کر مار ڈالا۔اس کے علاوہ برطانوی شہری سمیت چھ دوسرے ممالک کے سیاحوں کو بھی سرینگر میں ایک بھیڑ نے دھمکایا۔وسیم احمد کو ‘چوٹی کاٹنے والے’ کے شبہے میں ایک نگرانی کرنے والے گروپ نے شمالی کشمیر میں بری طرح مارا پیٹا۔انھوں نے بتایا کہ لوگ انھیں زندہ جلانا چاہتے تھے لیکن پولیس نے بچا لیا۔نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک معمر شخص نے بتایا کہ انھوں نے اپنی بہو کے تین دن میں دو بار بال کاٹے جانے کے واقعے کے بعد اپنے گھر پر سی سی ٹی وی کیمرہ لگوایا ہے۔
عابد بھٹ سرینگر میں مقیم فوٹوگرافر ہیں