یکم اور دو مارچ کو ابوظہبی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا 46 واں اجلاس تھا‘ تنظیم نے پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو بطور اعزازی مہمان شرکت کی دعوت دی‘ پاکستان نے شدید احتجاج کیا‘ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بطور احتجاج اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا لیکن او آئی سی کی تاریخ میں پہلی بار تنظیم نے بنیادی رکن کے احتجاج کو مسترد کر کے غیر رکن اور غیر مسلم ملک کو فوقیت دی‘ بھارتی وزیر خارجہ نے اجلاس سے خطاب کیااور پاکستان کا نام لیے بغیر ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا اور ہم 50 سال کی تاریخ میں اس اجلاس میں موجود نہیں تھے۔ آپ پاکستان کی سفارتی بلندی ملاحظہ کیجیے‘ ہم نے 1969ء میں بائیکاٹ کی دھمکی دی اور بھارتی وفد کو راستے سے واپس لوٹا دیا گیا اورآپ اب پستی بھی ملاحظہ کیجیے‘ ہم نے 2019ء میں عملی طور پر بائیکاٹ کردیا لیکن ہمارے دونوں برادر اسلامی ملکوں سعودی عرب اور یو اے ای نے ہمارے احتجاج اور بائیکاٹ کو درخوراعتنا نہیں سمجھا اور یہ دونوں وہ ملک ہیں جن کے شہزادوں کے استقبال کے لیے ہمارے وزیراعظم ڈرائیور بن گئے تھے‘ آپ المیے پر المیہ بھی دیکھئے ‘تنظیم کے سامنے جب بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے انتخاب کا وقت آیا تو برادر اسلامی ملکوں نے غیربرادر اور غیراسلامی ملک کا انتخاب کیا‘ یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے‘ ہم 1969ء میں معاشی‘ سیاسی اور سماجی تینوں حوالوں سے مضبوط تھے‘ ہم ترقی پذیر لبرل ملکوں میں شمار ہوتے تھے‘ ہم کشکول لے کر نہیں پھرتے تھے‘ ہم دنیا کو ڈاکٹر اور انجینئر بھی دیتے تھے اور کاٹن اور جیوٹ بھی چنانچہ دنیا ہمارے سفیر کے مطالبے پربھارتی وفد کو راستے سے واپس بھجوا دیتی تھی۔ ہم امریکا اور چین جیسے دشمنوں کو بھی ایک میز پر بٹھا دیتے تھے لیکن ہم اب زوال کے ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں
جس میں ہم اس تنظیم کو بائیکاٹ کی دھمکی دیتے ہیں ہم جس کے بانی رکن ہیں اور ہمارے اسلامی بھائی ہمیں مسترد کر کے غیرمسلم اور غیر رکن ملک کی وزیر خارجہ کو ہم پر فوقیت دے دیتے ہیں‘ ہم کیا تھے اور ہم کیا ہوچکے ہیں! ہم نے کبھی سوچا؟ خدا کے لیے اب تو مان لو دنیا بھیک مانگنے اور دوسروں کے لیے مسائل پیدا کرنے والوں کے ساتھ یہی سلوک کرتی ہے‘ آج تو ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی دھند سے باہر آ کر حقائق کا ادراک کر لو‘ آج تو یہ مان لو ہم بھکاری ہیں‘ ہم بھیک کے بغیر ملک نہیں چلا سکتے‘ ہمیں پٹرول بھی مفت چاہیے‘ بجلی اور گیس چوری کرنے کا حق بھی اور ساتھ ہی سخی ملکوں کو آنکھیں دکھانے کی اجازت بھی‘ مان لو دنیا میں یہ کمبی نیشن نہیں چلتا‘ دنیا بھکاریوں کی ترچھی آنکھیں برداشت نہیں کرتی اور دوسرا یہ بھی مان لو دنیا ہم سے خوش نہیں ہے‘ہم دنیا میں دہشت کا استعارہ ہیں‘ ہم نے پاکستان کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر کانٹوں کی خوفناک فصل بورکھی ہے‘ دنیا کو ہم سے خوف آتا ہے اور یہ اس خوف کی علامت ہے کہ بم امریکا میں پھٹے‘ روس‘ یورپ‘ تھائی لینڈ یا پھر بھارت میں پوری دنیا دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی پاکستان پاکستان کی دہائی دینا شروع کر دیتی ہے‘ یہ بھی مان لو دنیا ہمیں دہشت گرد اور دہشت گردی کا ایکسپورٹر سمجھتی ہے اور ہم 70ہزار لاشیں اٹھانے کے باوجود دنیا کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں ’’ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ ہم دہشت گردی کا شکار ہیں‘‘ مان لو ہم مارکیٹنگ فیلیئر کی خوفناک مثال بنتے جا رہے ہیں
اور ہم جب تک بھیک اور دہشت گردی کے ٹائٹل سے نہیں نکلیں گے دنیا ہماری عزت نہیں کرے گی‘ یہ بھی مان لوبنگلہ دیش ہم سے آگے نکل گیا اور آج اگر افغانستان کے حالات ٹھیک ہو جائیں تو یہ بھی ہم سے آگے نکل جائے گا‘ یہ بھی ریت اور پتھر بیچ کر ہم سے زیادہ خوش حال ہو جائے گا جب کہ ہم کام اور ڈیلیور کرنے والوں کو اسی طرح گلیوں میں گھسیٹتے رہیں گے اور آخری حقیقت بھی مان لو‘ دنیا نے اپنے سارے جھگڑے نبٹا لیے ہیں‘ آپ کو اس وقت امریکا سے مشرق بعید تک کوئی لڑائی کوئی جنگ دکھائی نہیں دیتی‘ شمالی کوریا اور امریکا ویت نام میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ چکے ہیں‘ طالبان اور امریکا نے بھی ہاتھ ملا لیے ہیں‘ جنگ اگر ہے تو صرف اسلامی ملکوں میں ہے چنانچہ اسلامی دنیا اس وقت اسلحے کی سب سے بڑی خریدار ہے‘ بھارت اور پاکستان بھی 70 سال سے کشمیر کے نام پر لڑ رہے ہیں‘ یہ 70 برسوں سے کھربوں روپے کا اسلحہ بھی خرید رہے ہیں۔ یہ مان لویہ ایشو اسلحہ بیچنے والے ملکوں نے پیدا کیا تھا اور یہی ملک یہ مسئلہ حل نہیں ہونے دے رہے چنانچہ کشمیر کا مسئلہ جب بھی حل ہو گا پاکستان اور بھارت دونوں مل کر کریں گے‘ ہم نے جب بھی کسی تیسرے ملک کو اس میں شریک کیا وہ ملک مزید اسلحہ بیچ کر درمیان سے نکل جائے گا لہٰذا میری درخواست ہے بھیک لینا بند کریں‘ دہشت گردی کے گرداب سے نکلیں اور بھارت کے ساتھ سیٹل منٹ کریں ورنہ پھر اس وقت کے لیے تیار ہو جائیں جب ہمیں عمرے اور حج کے ویزوں کے لیے بھی بھارت سے اجازت لینا پڑے گی‘ یہ دنیا بھکاریوں اور تنگ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتی خواہ عراق ہو‘ لیبیا ہو یا پھر شام ہو۔