وینا اور اسد کی صلح : اصل معاملہ کیا ہے؟
معروف ماڈل، اداکارہ اور میزبان وینا ملک کی اسد خٹک سے خلع کی خبریں گذشتہ ہفتے میڈیا پر آئیں اور پھر کل ایک نجی نیوز چینل کے پروگرام میں دونوں کی صلح کی رپورٹس سامنے آ گئیں۔نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی نیوز‘ کے پروگرام ’الیونتھ آور‘ میں بات کرتے ہوئے وینا ملک نے کہا کہ ’جو لڑکی اپنا گھر خود بساتی ہے کبھی نہیں چاہتی کہ اس کا گھر ٹوٹے، لیکن اسد نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا‘۔
پروگرام میں مشہور مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل بھی موجود تھے۔اس موقع پر وینا ملک کا مزید کہنا تھا کہ ’اسد نے مجھے بہت تنگ کیا اور تکلیف پہنچائی جس کے بعد میں نے سوچ لیا تھا کہ ان سے کبھی صلح نہیں کروں گی، لیکن اگر مولانا طارق جمیل اسد کی ذمہ داری لیتے ہیں تو میں اسد کو معاف کرنے اور ان سے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘
اس سارے معاملے کی اصل حقیقت کیا ہے، ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی۔
جب اداکارہ کے وکیل علی محمد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ وینا ملک نے مولانا طارق جمیل کو بتایا کہ ‘مولانا صاحب آپ میرے لیے قابل احترام ہیں، میں آپ کی بہت عزت کرتی ہوں، لیکن معاملہ عدالت میں ہے، اسے فیصلہ کرنے دیا جائے’۔علی محمد کا کہنا تھا کہ ‘وینا ملک کے اس بیان کا قطعاً یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ ان کی اسد خٹک سے صلح ہوگئی ہے، صلح اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک وینا دو ٹوک اور واضح الفاظ میں یہ نہ کہیں کہ وہ کیس واپس لے رہی ہیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘تمام لوگوں نے ثالثی کی کوشش کی ہے، تاہم جب تک عدالت کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا، اُس وقت تک صلح نہیں ہوسکتی’۔
واضح رہے کہ وینا ملک نے 6 جنوری 2017 کو لاہور کے فیملی جج کی عدالت میں خلع کا دعویٰ دائر کیا تھا، تاہم 3 نوٹسز جاری ہونے کے باوجود اسد خٹک کی مسلسل غیر حاضری پر فیملی کورٹ کے جج محمد قیصر جمیل گجر نے 31 جنوری 2017 کو یکطرفہ طور پر خلع کا فیصلہ سنادیا اور وینا ملک کے حق میں ڈگری جاری کردی۔بعدازاں قواعد کے مطابق عدالت نے یہ کیس متعلقہ یونین کونسل میں بھیج دیا جبکہ وہاں سے بھی نوٹسز جاری ہونے اور اخبارات میں اشتہارات چھپوائے جانے کے سارے عمل کے دوران بھی اگر دونوں میں صلح نہیں ہوئی تو حتمی طور پر خلع ہوجائے گی۔واضح رہے کہ یونین کونسل میں بھی ثالثی اور دونوں فریقین کے درمیان معاملہ حل کرنے پوری کوشش کی جاتی ہے۔
علی محمد نے بتایا کہ اسد خٹک نے صلح کروانے کے لیے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ساتھ مولانا طارق جمیل، جامعہ بنوریہ کے مفتی نعیم اور ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاء یوسفزئی کو شامل کر رکھا ہے، جو اس حوالے سے کوششیں کر رہے ہیں۔علی محمد کا کہنا تھا کہ ‘چونکہ وینا ایک روایتی قسم کی لڑکی ہیں تو وہ سب کی بات ضرور سنیں گی اور اگر شریعت کے مطابق انھیں لگا کہ انھیں یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے تو وہ ایسا کرسکتی ہیں، تاہم ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہے’۔جب اس سلسلے میں وینا کے والد محمد اسلم سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ‘ہر باپ چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کا گھر بسا رہے اور میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ اگر شرعی گنجائش نکل سکے تو وینا اور اسد کی صلح ہوجائے’۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘لیکن اس سلسلے میں وینا کی رضامندی سب سے زیادہ ضروری ہے، کوئی ان سے زبردستی نہیں کرسکتا’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘وینا جو بھی فیصلہ کریں گی، میں ان کے ساتھ ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں اور میری دعا ہے کہ خدا کرے دونوں کی صلح ہوجائے لیکن اس کے لیے وینا پر کوئی دباؤ نہ ہو’۔وینا ملک کی جانب سے اسد خٹک پر تشدد کے الزامات کے حوالے ان کے والد نے کہا کہ ‘اسد نے حدیں پار کرلی تھیں، جس کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا’۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘کافی ساری چیزیں ہم منظر عام پر نہیں لائے کیونکہ ان کے (اسد خٹک کے) ساتھ ہمارا تعلق ہے، دونوں کے بچے ہیں، ایک رشتہ ختم ہوجانے سے رشتے داری ختم نہیں ہوسکتی’۔یاد رہے کہ اسد خٹک نے گذشتہ روز ٹی وی پروگرام کے دوران وینا ملک سے معافی مانگتے ہوئے مولانا طارق جمیل سے درخواست کی تھی کہ وہ ان کی ذمہ داری لے لیں، اب ان سے کوئی غلطی نہیں ہوگی’۔جس پر مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ ’غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اس لیے اسد کو موقع ملنا چاہیئے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اسد کہہ رہا ہے تو میں ان کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار ہوں، میں وینا کی حمایت کرتا ہوں لیکن یہ بھی چاہتا ہوں کہ ان کا گھر آباد رہے۔‘اسد خٹک اور وینا کی شادی 25 دسمبر 2013 کو ہوئی تھی اور ان کے دو بچے ہیں۔