تحریر: شمس الحق مینگل
برصغیر پر ولائتی قبضہ گیریت کے خلاف جہاں ہر کسی نے علم بغاوت بلند کیا وہیں سر زمین جہالاوان کے فرزند کسی سے پیچھے نہیں تھے ۔ نور محمد عرف نورا مینگل، سردار نورالدین مینگل ،غازی سلیمان گرگناڑی اور ان کے دیگر ساتھیوں نے فرنگیوں کو اپنے جنگی حکمت عملیوں اور تائیدخداوندی سے جس طرح ناکوں چنے چبوائے وہ تاریخ میں ایک سنہری باب ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ روز اول سے آج تک اس سلسلے میں مئورخ کے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ ادیب خاموش ہے ، میڈیا گُنگ ہے۔
یوں تو فرزندان جھالاوان نے کئی معرکوں پرانگریز گماشتوں کو تگنیوں کے ناچ نچوائے ،چونکہ آج 25جون کو معرکہ دودکی جسے آج پورے سو سال ہونے کو ہے، اس لئے معرکہ دودکی کی یاد منائی جارہی ہے۔نورا مینگل بعض روایات کے مطابق جسے خواب میں حضور اکرم ۖ کی زیارت نصیب ہوئی انہیں فرنگیوں (کفار) کے خلاف جہاد کرنے کا اشارہ ملا ، کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا محمد صادق کھڈہ مارکیٹ کراچی کو بیک وقت حضور اکرم ۖ خواب میں تشریف لائے اور اُنہیں نورا مینگل کی تصویر دکھا کر فرمایا کہ جھالاوان میں جہاد میں یہ نوجوان آپ کے حامی ہے اس کی رہنمائی کریں، یہ نوجوا ن آپ کو صبح بکرا پڑی کراچی میں ملے گا۔مولانا عبیداللہ سندھی نے مولانا صادق کے ذریعے بکرا پڑی کراچی سے(جہاں نورا مینگل بھیڑ بکری بیچنے آیا تھا) ڈھونڈ نکالا اور اس سے خواب کا تذکرہ کیا۔ نورا مینگل نے بھی اس بات کی تائید کی ۔ یوں نورا مینگل اس دن سے کفار کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے کمر بستہ ہوئے اور جھالاوان روانہ ہوئے۔مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا محمد صادق نے اُنہیں اسلحہ وغیرہ دیکر رخصت کیا، جھالاوان پہنچ کر نورا مینگل نے انگریز فوج کو للکارا اور معرکہ پر معرکے سر کرنے لگا۔سلسلہ چلتا رہا اور کاروان بنتا گیا، سردار نورالدین مینگل اور دیگر لوگ آپ کے ساتھی بنتے گئے۔
8مارچ1916کو سردار نورالدین مینگل ،شہبازخان گرگناڑی ،نورا مینگل و سردار رسول بخش ساسولی اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ہمراہ زیدی میں پیر کمال شاہ کے مزار پر جمع ہوکر ایک عہدنامہ تحریر کر کے حلف اُٹھا ئے کہ جب تک دم میں دم ہے کفار کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ان کا یہ عہد نامہ آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔سردار نورالدین مینگل اور شہباز خان گرگناڑی اسلحہ وغیرہ حاصل کرنے کیلئے ایرانی بلوچستان چلے گئے۔جبکہ غازی رسول بخش ساسولی ، غازی نورا مینگل ،میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی ، گہرام مینگل ، لالو مینگل اور دیگر ساتھی مزاحمت جاری رکھے۔ لاڑکانہ ، دادو اور شکار پور کے علاقہ میں انگریز فوج کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے علاقہ میں بے چینی بڑھتی گئی۔12اپریل1916ء کو نورا مینگل ، خان محمد گرگناڑی ، لالو مینگل اور ان کے ساتھیوں نے لاکھوریان کے قریب ڈاک کو چھین لیا۔
سوراب کے قلعہ پر قبضہ کرنے والے تھے کہ سردار ہارونی حکومتی اہلکاروں کو تازہ کمک پہنچا کر قلعہ کو قبضہ ہونے سے بچالیا۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ولی محمد کے بیٹے میر رحیم خان مینگل و میر علم خان مینگل کو خضدار بلوایا، انہیں نورا مینگل اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کاحکم دیامگر انہوں نے نورا مینگل کو گرفتار کرنے سے معذوری ظاہر کی ۔ نورا مینگل دہشت اور خوف کی علامت بن چکے تھے۔ انگریز مجبور ہو کر نورا مینگل اور اس کے ساتھیوں کے خلاف خود جنگ کے لئے میدان میں اتر آیا۔ایک لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا۔نورا مینگل اس وقت اپنے اکیس ساتھیوں کے ہمراہ مشہور پہاڑی سلسلہ کوہ پھب میں موجود تھا۔اچانک اُنہیں معلوم ہوا کہ انگریز لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا ہے تو وہ راتوں رات میر رسول بخش ساسولی کی مدد کیلئے زیدی روانہ ہوئے، ابھی وہ گاج کے علاقے پہنچے تھے کہ اُنہیں معلوم ہوا کہ فوج زیدی نہیں بلکہ وڈھ کا رُخ کیا ہوا ہے۔
اُ نہوں نے اسے ایک جنگی چال سمجھا ۔ فوراً اُلٹے پائوں واپس خود کو وڈھ پہنچادیئے ۔برسات کا موسم تھا آفتاب غروب ہوچکا تھا، وقفے وقفے سے بارش برس رہی تھی۔مگر یہ شیر جواں 50میل کا فاصلہ دوبارہ طے کرکے صبح صادق کو برستی بارش میں واپس کوہ پھب پہنچ گئے۔کپتان ہینڈرسن رات کے اندھیرے میں گہرام مینگل جو کہ نورا مینگل کے چچا زاد بھائی تھے کے گائوں اور گھر کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ گہرام ،لالو اور حسین خان اور ان کے ساتھی اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ صبح ہوئی تو وہ خود کو انگریز فوج کے گھیرے میں پائے۔اس سے ایک دو دن پہلے نورا مینگل نے گہرام مینگل کو مشورہ دیکر کہا کہ انگریز فوج حملہ کرنے والا ہے آپ کے پاس بندوق نہیں تلوار سے جنگ میں حصہ لینا دشوار ہے آپ گھر والوں کو لیکر پہاڑوں میں چلے جائیں، ہمارے پاس بندوق ہے ہم انگریز کے خلاف بندوق سے لڑیں گے ۔مگر گہرام نے اس کی ایک نہ سنی اور اپنے گائو ں اور گھر کو چھوڑ کر جانے کو عیب سمجھا۔حسین خان گمشادزئی جو کہ گہرام مینگل کے رشتہ دار تھے انہوں نے بھی گہرام کو مشورہ دیا کہ آپ بچوں اور عورتوں کو لیکر ہمارے ساتھ پہاڑوں میں نکل جائیں۔
ہم تلواروں کے ساتھ انگریز فوج کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ مگر گہرام مینگل نے حسین خان کو طعنہ دیکر کہا کہ آپ اپنے بھائی اور بیٹوں کیلئے ڈررہے ہو میں اپنے گھر کی دہلیز پر کفار سے لڑکر جام شہادت نو ش کروں گا۔یہ بات حسین خان گمشادزئی کو ناگوار گزری اس نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو آپ دیکھنا کہ کس طرح میرے بھائی اور بیٹے مردانہ وار لڑ کرشہید ہوتے ہیں۔اس طرح اُنہوں نے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر کفار کا انتظار کیا ۔ وقوع کے روز انگریز نے لیویز سپاہئیوں کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا کہ تلوار پھینک کر سلام کرو اور ہمارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائو۔ تو اُنہوں نے جوش شہادت سے سر شار ہوکر تلوار پھینکنے کے بجائے ننگی تلوار لیکر میدان میں نکلے۔گہرام خان مینگل جب تلوار لیکر انگریز فوج کی طرف حملہ آور ہوا تو حسین خان گمشادزئی نے اُسے پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روکے رکھا اور کہا کہ آج دیکھنا کہ آپ سے پہلے میرے بھائی اور بیٹے کس طرح لڑکر جام شہادت نوش کرتے ہیںاور ہوا بھی اسی طرح حسین خان گمشادزئی کے بھائی اور بیٹے ایک ایک کر کے انگریز سے لڑکر جام شہادت نوش کر گئے۔
آخر میں حسین خان گمشادزئی گہرام مینگل کو پیچھے پھینک کر خود لڑنے کفار پر حملہ آور ہو ا اور شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔اب گہرام مینگل کی باری تھی، روایات سے معلوم ہواکہ کچھ عرصہ قبل سردار نورالدین مینگل نے گہرام مینگل کو ایک پستول اور اس کی گولی دکھائی اور کہا کہ یہ پستول ہے اور اس کی اس گولی سے انسان مر سکتا ہے تو گہرام مینگل نے طنزیہ انداز میں ہنس کر کہا کہ اس گولی سے انسان مرسکتا ہے اس بات کو میں نہیں مانتا۔اگر کوئی جتنی بھی گولیاں میرے سر کے علاوہ جسم کے باقی کسی بھی حصے میں مارے میں مرنے سے پہلے اپنے مدمقابل کو تلوار کی وار کرکے قتل کردوں گا، پھر شاید مرجائوں۔ اس پر سردار نورالدین اور گہرام مینگل کے درمیان بحث چھڑگئی اور بات شرط تک پہنچ گئی، سردار نورالدین مینگل نے کہا کہ سر کے علاوہ میں آپ کو جسم میں گولی مارکر قتل کرتا ہوں آپ مجھے تلوار سے گھائل کریں۔عہد و بیمان ہورہے تھے کہ میر جمعہ خان شاہی زئی درمیان میں آکر ایک بہت بڑے سانحے سے اُنہیں روک دیا۔
وقوع کے روز یعنی 25جون 1916ء کو دودکی معرکہ میںگہرام مینگل نے اپنے اس قول اور خیال کاعملی ثبوت دیکر ثابت کردیا۔جب حسین خان کی شہادت ہوئی اور گہرام مینگل ننگی تلوار لیکر انگریز کمانڈر پر حملہ آور ہورہا تھا تو انگریز کمانڈر کے ہاتھ میں پستول تھی اس پستول سے وہ گہرام مینگل کو سات گولیاں مار چکا تھاجوکہ اس کے پیٹ میں لگے تھے جس کی وجہ سے اس کی انتڑیاں نکل کر باہر آچکے تھے اور دشمن پر حملہ کرنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ انہیں اپنے آزار بند کے ساتھ باندھ کر دشمن پر حملہ آور ہوئے اور آٹھویں گولی سے پہلے اپنے مدمقابل کا سر قلم کرکے شہادت جیسے عظیم درجے پر فائز ہوکر ہمیشہ کے لئے امر ہوئے۔اس معرکہ میں گہرام مینگل اور حسین خان گمشادزئی کے علاوہ کل 33جوان جام شہادت نوش کئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
صالح محمدولد دودا قوم گرگناڑی ، رسول بخش ولد ناکام قوم گرگناڑی، محمد ولد بھٹے خان قوم قلندرانی، عارف ولد بھٹے خان قوم قلندرانی، کیچی ولد دھنگو قوم زہری، سنجر خان ولد جمعہ خان قوم زہری، دین محمد ولد نور محمد قوم میروانی، ضرور ولد ہیبت خان قوم بارانزئی، اعظم خان ولد سید خان قوم ڈھلو جو ، ولیداد قوم محمود زئی مینگل، حسین خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل، لعل محمد ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل، سنجر خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل، مہیم خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل، بلوچ خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل، مراد خان ولد علم خان قوم گمشادزئی مینگل،عبدالکریم ولد حسین خان، دین محمد ولد مراد خان قوم گمشادزئی مینگل، سید خان قوم گمشادزئی مینگل، احمد ولد فتح محمد قوم گمشادزئی مینگل، پیارا ولد علی محمد قوم گمشادزئی مینگل ، حسن خان ولد بلوچ خان قوم گمشادزئی مینگل، نورا ولد ہیبت خان قوم گمشادزئی مینگل، حسین خان ولد گمشاد قوم گمشادزئی مینگل ، محمد ولد دوست محمد قوم گمشادزئی مینگل، جنگی خان ولد دوست محمد قوم گمشادزئی، جان محمد ولد موسیٰ خان قوم حملزئی، علی مراد ولد حمزہ قوم حملزئی، محمد ولد کامبو قوم حملزئی، حسین خان ولد میر محمد قوم حملزئی، عبداللہ قو م دولت خانزئی، میر گہرام خان ولد حسن خان قوم حملزئی، شہداد ولد یار محمد قوم چھٹو۔
جب گائوں کے تمام لوگ (مرد) شہید ہوئے تو فوج نے پورے گائوں کو لوٹ کر شہداء کو ایک بھوسے کے گودام (کوم)میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی۔بعد میں لوگوں نے رات کے اندھیرے میں گہرام مینگل اور شہداد چھٹو کے تابوت نکال محفوظ جگہ پر بڑے دودکی میں دفن کر دیئے مگر باقی لوگوں کے تابوت نکال نہ سکے۔باقی 31شہداء کے اجتماعی مزار کو کئی سالوں کے بعد سردار عطاء اللہ مینگل کی جانب سے ایک چھوٹی سی چار دیواری تعمیر کرکے شہداء کے ناموں کی تختیاں چاروں اطراف لگائی گئی ہے۔شمالی جانب ایک تقریباً 10سے 15فٹ اونچا مینار بھی ہے۔ جس پر یوم شہادت 25جون 1916ء درج ہے ۔ اس کے علاوہ یہ فارسی شعر بھی کنندہ ہے۔
بر مزار ِماغریباں نہ چراغ نہ گل
نہ پرِ پروانہ سوزدنہ صدائے بلبل
انگریز ی فوج گہرام مینگل اور اس کے ساتھیوں کو شہید کرکے ان کے گائوں اور گھروں کو تخت و تاراج کرنے کے بعد پہاڑوں کے دامن میں واقع گائوں کارُخ کردیا۔اوروہاں پر بھی لوٹ مار کر کے واپس وڈھ کی جانب جا رہے تھے کہ نورا مینگل ان کے راستے میں آکر ان سے اپنے نہتے شہداء کا وہ بدلہ لیا کہ فرنگی انگشت بدنداں ہوئی اور تاریخ میں ایسا بدلہ شاید کسی نے لی ہو ۔ نورا مینگل راستے میں ایک پہاڑی کے دامن میں تاک میں سات(7) ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر فوج کے آنے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ باقی کے چودہ(14)ساتھیوں کو دیگر چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی طرف بھیج دیئے۔ رائفل صرف نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی کے پاس تھے باقی ساتھیوں کے پاس مقامی روائیتی ڈھاڈری بندوق (رُغدار)تھے۔ان میں سے پانچ ساتھیوں کے پاس صرف تلواریں تھیں۔ پلٹن جوں جوں قریب آتا گیا مگر ان پر کوئی فائرنگ نہ ہوئی۔ کیونکہ رات بھر کی بارش سے رُغداروں کے بارود نمی کے باعث آگ نہیں پکڑ رہے تھے۔
نورا مینگل کو پریشانی لاحق ہوئی کہ ابھی تک فوج پر اُ س کی طرف سے کوئی فائر نہیں ہورہا تھا تو اُنہوں نے اور خان محمد گرگناڑی نے فوج پر فائرنگ شروع کردی فوجی جوں ہی فائرنگ کی آواز سنے تو فوراًزمین پر لیٹ گئے ۔ وہاں ایک خشک ندی اور ساتھ میں پر پُک کے درخت موجود تھے ان میں وہ چھپ گئے۔نورا مینگل کے پانچ ساتھی جو صرف تلواروں سے لیس تھے جوش میں آکر تلواریں ننگی کر کے ان پر حملہ آور ہوئے اُنہیں دیکھ کر باقی چودہ ساتھی جن کے رُغدار ناکام ہوئے تھے وہ بھی اپنی اپنی تلواریں میان سے نکال کر فرنگیوں پر حملہ آور ہوئے۔ابھی تک وہ دشمن تک نہیں پہنچے تھے کہ دشمن کے گولیوں کا نشانہ بن کر جنت الفردوس سدھار گئے، جو اُن کی آخری خواہش تھی انہی میں سے ایک مجاہد اپنے تلوار کے ساتھ قریب تھا کہ ہینڈرسن کا سر قلم کرتاہنڈرسن یہ دیکھ کر اُٹھ بیٹھا اور پستول نکال کر اُسے بھی شہادت کی راہ دکھائی۔ ا ب صرف نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی رہ گئے تھے۔ اسی دوران ہنڈرسن کا سینہ نورا مینگل کے سامنے تھا کہ موقع پاکر نورا مینگل نے اس کے سینے میں گولی پیوست کر کے جہنم واصل کردیا۔کپتان پار گیڈ گھٹنوں کے بل رینگ کر ہنڈر سن کے لاش تک پہنچ گیا اور پائوں سے پکڑ کر لے جانے والے تھا کہ نورا مینگل کی دوسری گولی نے پارگیڈ کے پیشانی میں پیوست ہو کر اسکا کا تمام کردیا۔
یہ دیکھ کر لیفٹیننٹ کلینیکل اُٹھا تو نورا مینگل کی تیسری گولی نے اُس کی ٹوپی اُڑادی مگر وہ بد بخت بچ نکلا۔ آفیسران کے مردار ہونے کے بعد باقی فوج میں بھگدڑ مچ گئی ان کی ترتیب ٹوٹ گئی، ہر کوئی جس طرف منہ تھا بھاگنے لگے جس سے نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی کو بہترین موقع ملا اور اُنہوں نے ایسا تابڑ توڑ حملہ کیا کہ ہر گولی سے ایک ایک سپاہی زمین پر گررہا تھا ۔زمین پر خون کی ندیاں بہنے لگیں ، کئی کئی لاشیں زمین پر پڑی ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔ اب پلٹن واپس ہوئی۔ رسالہ حملہ آور ہوا حملہ کے دوران رسالہ کا جمعدار سب سے آگے تھا ۔ خان محمد گرگناڑی کی گولی نے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے پیچھے دوسرا سوار آرہا تھا اس کا کام نورا مینگل کی گولی نے تمام کردیا۔ یہیں سے رسالہ دو حصوں میں تقسیم ہوا اور ان سے گزرتا ہوا دور ہوگیا اور تیزی سے ان سے اوجھل ہوگیا۔اسی دوران کرنل ڈیوڈ (ڈیہو) وہیر میں آچکا تھا لیفٹیننٹ کلینیکل نے اُسے دودکی معرکے کی داستان سنائی کہ اس جنگ میں دو (2)کپتانوں کے علاوہ رسالہ جمعدار اور کئی سپائی مارے گئے ہیں (اندازاً 100 سے زائد سپائی مارے گئے تھے ۔کیونکہ نورا مینگل کے بقول جو بعد میں انہوں نے لوگوں کو بتایاتھا کہ میں نے 90 گولیاں برسائے تھے جن میں سے صرف 2 یا 3 گھوڑوں اور خچروں کو لگے باقی انگریز سپاہیئوں کے جسموں میں پیوست ہوئے) خان محمد گرگناڑی کی گولیاں الگ کامیابیاں سمیٹے تھے۔
لیفٹیننٹ کلینیکل نے یہ بھی کہا کہ نورا مینگل کے 33 ساتھی بھی مارے گئے ہیں، جو سارے کے سارے نہتے تھے جن کے پاس صرف تلواریں تھیں۔اگر یہ سارے نورا مینگل کی طرح پُر سلاح ہوتے تو فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ بچ کر واپس نہیں آسکتا۔کرنل ڈیہو یہ سن کر انتہائی رنجیدہ ہوا اور آگ بگولہ ہو کر سیدھا وڈھ پہنچ گیا ۔یہاں ولی محمد مینگل ، جمعہ خان شاہیزئی اور دیگر معتبرین کو بلوایا اوراُنہیں گرفتار کیا (مگر کچھ عرصہ بعد یقین دہانیوں کے بعد اُنہیں رہا کر دیا گیا) اب کرنل ڈیہو خود نورا مینگل کی گرفتاری کیلئے نکل گیا۔وڈھ ، مولہ، گاج گولاچی، سارونہ، نال ، گریشہ، مشکے ہر جگہ ڈھونڈتا رہا مگر نورا مینگل تھا کہ ہاتھ نہیں آرہاتھا۔ نورا مینگل کی یہ خاصیت تھی کہ وہ دراز قد انتہائی چست ، پیدل جانے میں انتہائی ماہر، الٹے ہاتھ کا انتہائی کامیاب نشانہ باز (ٹِک تیر توپچی) جنگ کے دوران طنز و مزاج اور ہنس مکھ، عام حالت میں انتہائی خاموش طبع انسان تھا۔ روایات سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر جنگ کے دوران نظروں سے اوجھل ہوتاتھا۔(شاید یہ نبی پاک ۖ کا ایک معجزہ تھا جو اُنہیں خواب کے دوران نصیب ہوا ہو)۔
انگریز سرکار نے اپنی ایڑی چوٹی کا ذور لگایا مگر نورا مینگل کو گرفتار نہ کر سکا۔آخر میں جبب بے سر و سامانی کی حالت ہوئی، ساتھی ایک ایک ہو کر گرفتار ہو گئے پھر بھی نورا مینگل ہتھیارپھینک کر سلام کرنے کو اسلامی روایات اور براہوئی روایات کے بر خلاف سمجھا۔ جب پھب پہاڑ میں تھا تو بے سر و سامانی اور بندوق زیادہ استعمال ہونے سے خراب ہوگیا تو یہ سوچ کر کوئی وفادار ساتھی ملے جو اسے اسکا بندوق (رائفل) ٹھیک کر کے دے۔یہ سوچ کر اس نے خاران کے والی نواب حبیب اللہ نوشیروانی کا انتخاب کیا کیونکہ نواب حبیب اللہ کے والد ان کے بچپن میں مارا گیا اور اس کی حکمرانی چھن گئی تھی ، وہ یتیمی کی حالت میں جھالاوان آیا تھا اور یہاں پناہ حاصل کی تھی ۔یہاں کے لوگوں نے اُسے نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ اس کی مالی مددکرکے اس کی حکمرانی بھی واپس دلا دی تھی ۔نورا مینگل خاران پہنچنے میں کامیاب تو ہو ا مگر نواب صاحب نے اپنے آبائو اجداد کی قبر کا سودا کر کے نورا مینگل کی موجودگی کی خبر کوئٹہ یا نوشکی میں انگریز حکومت کو دے دی اور فوج نے رات کے اندھیرے میں نورا مینگل کو گھیر لیا۔ نورا مینگل نہتے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہو کر کوئٹہ یا کراچی سے کالا پانی پہنچا دیاگیا اور کئی سالوں کی قید کے دوران ہی شہید ہوئے ان کی جیل ہی میں شہادت کی خبر ان کے ایک رہائی پانے والے ساتھی کی زبانی معلوم ہوئی تھی ۔مگر ان کے مزار سے اہلِ جھالاوان اور اہلِ اسلام ہنوزنابلد ہیں۔
تحریر: شمس الحق مینگل