چند روز پہلے کسی صاحب نے ماضی کے ایک حکمران کی معیّت میں پروٹوکول کے ساتھ عمرہ کرنے اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کی کہانی لکھی جسے پڑھکر مجھے بھی ایک سرکاری عمرے کی روداد یاد آگئی ہے۔ 1993 کے ماہِ رمضان کی بات ہے راقم اُسوقت پرائم منسٹر کے ساتھ اسٹاف آفیسر تھا اور سنگین جرائم اور امن وامان کے معاملات دیکھتا تھا ۔
ایک روز میں اسلام آباد سے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا افطاری کے بعد میں والد صاحب اور والدہ صاحبہ سے ملکر اسلام آباد واپس جانے کے لیے نکلا توبیرونی برآمدے میں ہمارے ملازم نے روک کر کہا ’’تھانہ وزیرآباد کا ایس ایچ او آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے‘‘۔ میں گھر سے باہر آکر ایس ایچ او سے ملا تو اُس نے کہا ’’سر! وزیرِاعظم ہاؤس سے آپکے لیے پیغام ہے آپ فوری طور پر اسلام آباد پہنچیں کل صبح آپ نے بھی وزیرِ اعظم صاحب کے ساتھ سعودی عرب جاناہے‘‘۔ میں پولیس والوں کا شکریہ ادا کرکے گھر واپس آیا اور والدین کو خوشخبری سنائی ، وہ بھی بہت خوش ہوئے اورپھران سے اجازت لے کر اسلام آباد روانہ ہوگیا۔
اپنی رہائش گاہ پر پہنچ کر میںنے پرائم منسٹر ہاؤس فون کیا تو مجھے بتایا گیا کہ’’صبح آٹھ بجے پاسپورٹ لے کر پی ایم ہاؤس کے پروٹوکول سیکشن میں پہنچ جائیں‘‘۔ میں وقت سے کچھ پہلے ہی پی ایم ہاؤس پہنچ گیا، پروٹوکول افسرغلام عباس مجھے ساتھ والے کمرے میں لے گیااور الماری (جس میں درجنوں شیروانیاں لٹکی ہوئی تھیں) کھول کر کہنے لگا اس میں سے اپنے سائز کی شیروانی پہن لیں۔ میں نے اندازے سے ایک شیروانی اتاری جو مجھے فِٹ آگئی اور میں نے وہیںپہن لی پھر پوچھا اب اور بتائیں کیا کرنا ہے؟ پروٹوکول افسر نے کہا’’دس بجے تک ائرپورٹ پہنچ جائیںساڑھے دس بجے تک وزیرِ اعظم صاحب بھی پہنچ جائیں گے‘‘۔ ائیرپورٹ کے وی آئی پی لاؤنج میں پہنچا توچندوزرأ اور پی ایم اسٹاف کے کچھ اورلوگ بھی نظر آگئے۔ وہیں کسی نے بتایا کہ افغانستان کی آزادی کے لیے روس کے خلاف برسرِپیکار تمام افغان گروپوں کے درمیان اسلام آباد میں جومعاہدہ طے پایا ہے۔
اُسی معاہدۂ اسلام آباد کی توثیق مکہ مکرّمہ میں ہوگی۔ اسی لیے شاہ فہد نے پاکستان کے وزیرِ اعظم اور افغانستان کے صدر ، وزیرِ اعظم اور باقی لیڈروں کو سعودی عرب مدعو کیا ہے۔ مجھے اس تاریخی وفد میں شمولیّت پر مزیدخوشی ہوئی۔وقت ِمقرّرہ پر ہم سب لوگ جہاز میں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد وزیرِ اعظم بھی افغان مہمانوں کے ساتھ پہنچ گئے ۔ میاں صاحب نے حسبِ معمول سب کے پاس جاکر مصافحہ کیا اور پھر جہاز کے پائلٹ کی آواز گونجی’’میں پی آئی اے کی جانب سے اس خصوصی پرواز پر اسلامی جمہوریہ افغانستان کے صدر جناب برہان الدین ربّانی ، پاکستان کے وزیرِ اعظم جناب محمد نواز شریف اور افغانستان کے وزیرِ اعظم جناب گلبدین حکمت یار کو خوش آمدید کہتا ہوں‘‘۔ ہم سعودی عرب کی فضاء میں داخل ہوئے تو کیپٹن نے بتایا کہ ہم پہلے مدینہ منوّرہ کے ہوائی اڈے پر اتریں گے۔
ہوائی اڈے سے سیدھا ہم مسجدِ نبویؐ پہنچے اور وہیں روزہ افطار کیا اور مغرب کی نماز ادا کی اور روضہء رسولؐ پر درود وسلام کے بعد ہمیں گورنرمدینہ کے شاہی مہمان خانے میں لے جایا گیا۔ دوسرے روز ہم جدّہ پہنچے ایک رات وہاں قیام کرنے کے بعد ہم نے ہدایات کے مطابق احرام باندھ لیے اور لگژری کوچز کے ذریعے مکّہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مکّہ معظمہ میں ہمیں حرم سے متّصل سولہ منزلہ شاہی محل (دارالضیافہ) میں ٹھہرایا گیا ، ڈائننگ ہال کا بوفے ٹیبل واقعی شاہانہ تھا ان گنت اقسام کے کھانے اور مشروبات سجے تھے۔ بہت سے دوستوں کے لیے کھانے اور پینے کے لیے پسندکا انتخاب کرنا مشکل تھا۔ایک فلور پر نماز کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ مگر مسجد الحرام کے ہمسائے میں علیحدہ مسجد کا تصوّر مجھے بڑا نامناسب اور ناگوار محسوس ہوا۔
دوسرے روز دس بجے کے قریب جب میں وفد کے چند لوگوں کے ساتھ طواف کرنے میں مصروف تھا تو ایک دم ہلچل سی محسوس ہوئی، سعودی پولیس افسر بڑی تعداد میں خانہ کعبہ کی جانب آتے ہوئے نظر آنے لگے۔ پھر دیکھا کہ حرم کا اسٹاف رسّوںکی مدد سے طواف کرنے والوں کو پیچھے ہٹا رہا ہے، یہ کیا ماجراہے؟لوگوں کو پیچھے کیوں ہٹایا جارہاہے؟ ایک ساتھی نے کہا ’’وہ دیکھیں پرائم منسٹر صاحب آرہے ہیںان کے ساتھ افغانستان کے صدر اور وزیرِ اعظم بھی ہیں‘‘۔ انھوں نے طواف کے سات چکّر مکمل کیے تو پھر ہلچل مچی۔ عام زائرین کو مزید پیچھے دھکیل دیا گیا۔
اب کیا دیکھتے ہیں کہ سیڑھی لائی جارہی ہے۔ سیڑھی خانہ کعبہ کے دروازے کے ساتھ لگادی گئی۔ خانہ کعبہ کے قریب اب صرف سعودی پولیس افسرتھے یا پاکستانی وفد کے ارکان۔ ان کے علاوہ دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ وہیں پتہ چلا کہ وفد کے ارکان کو یہ خاص ’’اعزاز‘‘ بخشا گیا ہے کہ ان کے لیے خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جارہا ہے اورارکان چار چار کے گروپوں میں اندر جاکر نوافل ادا کریں گے۔ سب سے پہلے وزیرِ اعظم نوازشریف اور ان کے ساتھ افغانستان کے صدر برہان الدین ربانی اور وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار خانہ کعبہ کے اندر گئے، پھر وفد کے دوسرے ارکان جاتے رہے، عام زائرین یہ منظربڑی حسرت سے دیکھ رہے تھے۔
مجھے یہ سب کچھ براسا لگنے لگا۔ یا الٰہی تیرے گھر میں بھی کا تصوّر؟ ۔ تیرے گھر میںبھی عام اور خواص کا فرق کیوں ہے؟ خانہ کعبہ میں بھی یہ امتیازات برتے جائیں گے تو پھر فرق کہاںختم ہوگا؟ یہاں تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ایک طرف وہ لوگ ہیں جو بے پناہ شوق اور جذبے سے آئے ہیں، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنے مال مویشی اور زیور تک بیچ کر اﷲکے گھر کی زیارت کے لیے پہنچے ہوںگے۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کہ انھیں دور دھکیل دیا گیا ہے اور دوسری طرف سرکاری وفد کے ارکا ن ہیںجو ایک پیسہ خرچ کیے بغیر سرکاری خرچے پر یہاں آئے ہیں۔ رسّے کے اُس طرف والے جذبوں سے سرشار ہیںاوراِس طرف والے ’’سرکاری دورے‘‘ پر آئے ہوئے ہیں۔
اے کائناتوں کے خالق اور مالک! تیرے گھر میں بھی یہ امتیاز روا رکھّا جائیگا تو برابری کہا ںہوگی؟۔ یا الٰہی تیرا دربار ہی تو ایسی جگہ ہے جہاں امیر اور حقیر، بادشاہ اور فقیر سب برابر ایک ہی صف میں ہونے چاہئیں مگر یہ کیا ہورہا ہے؟۔ اس منظر نے میری طبیعت کو مکّدر کردیا۔ چند لمحوں کے لیے عمرے کاسارا جذبہ اور خوشیاں جاتی رہیںاور ذہن میں صرف یہی خیال آنے لگاکہ کاش ایسا نہ ہوتا ،کاش اﷲ کے گھر میں عام و خاص کا فرق روا نہ رکھّا جاتا! اُس وقت ایک عجیب سی خواہش نے جنم لیا کہ کاش ایسا ہوکہ خالقِ کائنات اپنے گھر میں روا رکھے جانے والے اس فرق اور امتیاز پر نا پسندیدگی کرنے کے لیے حضرت ِجبرائیل کو اِسی وقت بھیجیں۔ عظیم الشان جبرئیل ؑ آسمانوں سے زمین پر اتریں تو ان کی ہیبت سے ہر شخص پرکپکپی طاری ہوجائے۔
پھر وہ اعلان کریں کہ اﷲکے اس گھر میںبڑے عہدے رکھنے والوں کو نہیں بلندجذبے رکھنے والوں کو خانہ کعبہ کے اندر جانے کی اجازت ہوگی۔ اور پھرایسا ہوکہ ان کے ایک اشارے سے دنیادار اور صاحبانِ اختیار پیچھے دھکیل دیے جائیں اور سچے جذبوں اور عقیدتوں سے سرشار افراد سرکاری وفد کی جگہ بن جائیں۔
میں انھی خیالوں میں گم رہا اور خانہ کعبہ کے اندر جانے کا بھی خیال نہ رہا۔ اُدھر وفد کے تمام ارکان نفل ادا کرچکے تو سیڑھی اتر گئی۔ اچانک وزیرِ اعظم اسٹاف کے ایک افسرکی نظر مجھ پر پڑی۔ اس نے باآواز ِبلند مجھ سے پوچھا’’آپ اندر سے ہوآئے ہیں؟‘‘ میں خاموش رہا، اس نے سمجھا شاید رش کی وجہ سے میں نہیں جاسکا، وہ عربی زبان میں سیڑھی لے جانے والے اہلکار سے مخاطب ہوا اور سیڑھی دوبارہ لگانے کے لیے کہا ’’سیڑھی دوبارہ آگئی‘‘۔
اس نے مجھے بازو سے پکڑ کر سیڑھی پر چڑھادیااورمیں نے بھی خانہ کعبہ کے اندر جاکر دو نوافل ادا کرنے کا’’ اعزاز‘‘ حاصل کرلیا ۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ خانہ کعبہ کے اندر نہ جاتا تو حسرت ہی رہتی لیکن اُس وقت میں نے بھی یہ نہ سوچا کہ اسی صحنِ حرم میں لاکھوں افراد مجھ سے زیادہ حقدار ہیں۔ میںنے اپنی جگہ ان میں سے کسی کو خانہ کعبہ کے اندرکیوں نہ بھیج دیا۔ مجھے بھی قربانی دینے کی توفیق نہ ہوئی اور میں نے بھی اپنا ذاتی مفاد ہی پیشِ نظر رکھا اس لیے کہ میں بھی ایک عام ساگناہگار انسان ہوں