تحریر: شاہ فیصل نعیم
آٹھویں تک میں انتہا درجے کا نکما طالبِ علم تھا ۔ انگلش میں تو ہاتھ تنگ تھا ہی دس سال کی تگ ودو کے بعد اُردو بھی ٹھیک سے پڑھنی نہیں آئی تھی۔ نویں جماعت میں ہوتے ہوئے بورڈ کے امتحان کے لیے انگریزی کے پیپر میں ٥سے ٦ جملوں سے زیادہ خط یاد کرنے کی بساط مجھے میں نا تھی۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ اس کے بعد میں بہت زیادہ ذہین و فطین ہوگیا ۔ ہاں ایک خوبی جو میری ذات کا حصہ بنی وہ محنت کرنے کی عادت ہے اب بھی میں ہمت نہیں ہارتا اور خدا میری مدد کرتا ہے تو میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ میرا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیتاورنہ میری کیا اوقات ہے۔
یہ نویں جماعت میں میرا پہلا دن تھا میں اس سیکشن میں بالکل بھی نہیں آنا چاہتا تھا کیونکہ اس کے انچارج کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سبق یاد نا کرنے والوں کو بہت مارتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ پائوں بھی توڑ دیتا ہے ۔ ایسی افواہیں زبانِ زدِ عام تھیں اگر چہ بعد میں میرا تجربہ بالکل برعکس ثابت ہوا اگر میں اُس وقت کسی اور سیکشن میں چلا جاتا تو یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ۔ پہلادن اور اکثر طالبِ علم خوفزدہ تھے جو بول رہے تھے استاد کے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایسا لگا جیسے اُن کو بھی سانپ سونگ گیا ہو۔
میں سب سے آخری لائن میں بیٹھا تھا میرے بعد دیوار تھی میں سوچ رہا تھا کہ کاش دیوارکے اُس پار بیٹھنے کی اجازت ہوتی تو میں اُس پار بیٹھتا تاکہ اُستاد کی نظروں سے بچ جاتا۔ اُستاد نے کلاس میں آتے ہی جو باتیں کہیں اُنہوں نے میری زندگی بدل کر رکھی دی۔ اُستادِ محترم نے کہنہ شروع کیا: “دیکھو بچو ! مجھے نہیں معلوم آپ کا میرے بارے میں کیسا تاثر ہے ۔ مگر میں کچھ باتیں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں۔ پہلی بات یہ کہ اگر آپ کو سبق نہیں آتا تو کوئی بات نہیں میں ایک چیز کو اتنی بارسمجھائوں گا کہ ایک نا ایک دن آپ کو ضرور سمجھ آجائے گی”۔
پھر مثال دیتے ہوئے کہنے لگے “میں آپ سے پہلے اپنے شاگردوں کو کہا کرتا تھا “یار تم لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اتنا بڑا دماغ دیا ہے تمہیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ۔تم اگر میرے سامنے ایک طوطا لا کر رکھا دو تو میں ایک چیز کو جتنی بار تمہیں سمجھاتا ہو اگر اُسے سمجھائوں تو وہ بھی بولنے لگے تم تو پھر انسان ہو”۔ ایسی باتیں میں اپنے پہلے شاگردوں کو کہا کرتا تھا”۔ اُن کی اس بات پر خوف سے سہمے ہوئے چہروں پر ہنسی آگئی پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگے: “تو بچو آپ میں سے وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تو نائق ہیں اُنہوں تو روز مار پڑے گی وہ اس خوف سے آزاد ہوجائیں۔ دوسری بات جو میں آپ لوگوںکو بتانا چاہتا ہوں وہ اُن طالب علموں سے متعلق ہے جو میرے غصے کا شکار ہوتے ہیں۔ اُ ن میں وہ لوگ شامل ہیں جو سکول نہیں آتے اور ان سے بھی بڑھ کر مجھے جن لوگوں پہ غصہ آتا ہے وہ سکول آکر بھاگنے والے ہیں۔
ایسے لوگ میرے غصے کاشکار ہوتے ہیں۔ باقی لوگوں کو خوفزدہ ہونے کی بالکل ضرورت نہیں”۔
پھر اپنی باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگے: “بھاگنے والوں کے میں اس لیے خلاف ہوں کہ وہ دھوکا دیتے ہیں ۔ مجھے ، اپنے والدین کو اور سب سے بڑھ کر خود کو ۔ وہ ایسے کہ اُنہوں نے بے ایمانی کی اپنے والدین کے ساتھ والدین یہ سمجھ رہیں ہیں کہ ہمارا بچہ تو سکول گیا ہے۔ استاد گھر پہ فون کر تا ہے تو اُسے علم ہوتا ہے کہ بچہ سکول چلا گیا ہے مگر وہ سکول کی بجائے کہیں اور چلا جاتا ہے ۔ آخر میں وہ سب سے بڑی بے ایمانی کرتا ہے اپنے اور اپنے مستقبل کے ساتھ۔ بچو جو خود کو بھی دھوکا دینے سے باز نہیں آتا وہ کسی رحم کا مستحق نہیں ۔ اُس کا کل بھی اُسے معاف نہیں کرتا”۔
میرے پلے جو باتیں پڑیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ کبھی چھٹی نہیں کرنی اور دوسری یہ کہ محنت کرتے رہنا ہے اگر ایک دن سبق یاد نا ہوا تو کوئی بات نہیں دوسرے دن ہوجائے گا مگر کبھی بھی خود کے ساتھ بے ایمانی نہیں کرنی۔ بس میںایسا ہی کرتا رہا اور خدا تعالیٰ مجھے نوازتا رہا۔ اگر آپ عظیم بننے کا خواب اپنی آنکھوں میںسجا چکے ہیں تو ایمانداری کو اپنا لیجیے ، خود پر اور خدا پر یقین رکھیئے کیونکہ وہی تو ہے ایک جو ہر کسی کو نوازتا ہے۔ عظیم لوگوں کی کہانیاں پڑھ کے دیکھ لیں آپ کو ہر عظیم انسان بے ایمان نظر نہیںآئے گا ۔اب اس ایمانداری کا دائرے اپنی ذات سے شروع کرتے ہوئے جہاں تک آپ کی ہمت آپ کا ساتھ دے وہاںتک پھیلایا جا سکتا ہے۔
میں پچھلے کچھ دنوں سے بیرونِ ملک ہوں ایسے میں پاکستان سے دوستوں سے اکثر بات ہوتی رہتی ہے۔ ایسے ہی ایک دوست نے پوچھا بھائی : “آپ اتنے دنوں سے ان لوگوں کے درمیان رہ رہے ہیں آپ کو ان کی کون سی چیز سب سے اچھی لگی”؟ میں نے اپنے دوست کو یک لفظ جواب دیا: “ایمانداری”۔ وہ پوچھنے لگا: “کس پہلومیں”؟ میں نے اُسے کہا: “یہ ایمانداری کی کوئی حد نہیں ہوتی کہ یہاں ایمانداری کرنی ہے اور وہاں بے ایمانی سے کام لینا ہے۔ اس کی ابتدا اپنی ذات سے ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلوپر لاگو ہوتی ہے”۔ انسان کو ایمانداری اور مخلصی جیسی خوبیوں کو اپنانا چاہیے اسی میں قوموں اور انسانوں کی بہتر ی کا راز پنہا ں ہے۔
تحریر: شاہ فیصل نعیم