صرف ڈیڑھ برس بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین کی حراست اور سزاؤں کے باوجود اسے نیب سے کوئی شکایت نہیں‘
جبکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ‘ دونوں جماعتیں جسٹس جاوید اقبال پر یہ الزام عائد کر رہی ہیں کہ ان کی کارروائیوں کے پیچھے سیاسی عزائم ہیں اور کاروباری افراد کے احتساب سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ خیر، احتساب سے وہی معیشت متاثر ہو سکتی ہے جو کرپشن کے بل پر چلتی ہو! ہفتہ بھر پہلے جسٹس جاوید اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کے دو بڑے صنعت کاروں ، عارف حبیب اور میاں منشا، نے نیب لاہور ریجنل آفس کے نام اپنے ایک خط میں ادارے کی کارکردگی کو سراہا تھا۔ آصف علی زرداری کی قیادت میں اپوزیشن کے واویلے پر کوئی تعجب نہیں۔ جب وہ الزامات کارگر ثابت نہیں ہوئے تو چیئرمین نیب کی کردار کُشی کے لیے میڈیا کی مدد سے ایک نئی لہر اٹھائی گئی۔ نیوز ون پر چلائی گئی ویڈیو میں ظاہر کیا گیا کہ چیئرمین نیب ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کر رہے ہیں۔ مشکوک پس منظر رکھنے والی خاتون کا نام طیبہ گل بتایا جاتا ہے۔ طیبہ اور اس کا شوہر فاروق نول 39 مقدمات میں ملوث ہیں اور نیب کی کارروائی کو ذاتی انتقام کا تاثر دینے کے لیے بلیک میلنگ کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق طیبہ اور فاروق کے خلاف چھ شکایات موصول ہو چکی ہیں اور 36 افراد کی گواہیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق یہ دونوں کردار کسی بین الاقوامی گروپ کے رکن ہیں جس میں بظاہر ایف آئی اے ، پولیس، اعلیٰ تعلیمی کمیشن، اور دیگر اداروں کے اہل کار اور حکام بھی شامل ہیں۔ طیبہ اور فاروق کے خلاف 630 صفحات پر مبنی ایک ریفرنس دائر کیا جا چکا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ کے بعض رہنما چیئرمین نیب پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں؛ اگرچہ مسلم لیگ ن کے ایک حلقے نے خود کو اس مطالبے سے لا تعلق کر رکھا ہے۔ حمزہ شریف نے چیئرمین نیب سے متعلق معاملے پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے اور تحقیقات کا مرکزی نکتہ بھی ویڈیو کی حقیقت جانچنے کے ساتھ ساتھ اسے بد نیتی کے ساتھ سوشل میڈیا پر عام کرنے والوں اور غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے والوں کو بھی دائرہ کار میں لانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اس مبینہ بیلک میلنگ گروہ کو بے نقاب کرنے کے لیے بھی کڑی جانچ ہونی چاہیے، عین ممکن ہے کہ اپنے مذموم عزائم کے ساتھ اس گروہ کو غیر ملکی خفیہ اداروں کی ہدایات اور مالی معاونت بھی مل رہی ہوں۔ پاکستان کے گرد ہائبرڈ وار فیئر کا گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے، اس میں نہ صرف دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے لیے کام جاری ہے بلکہ فیک نیوز کے طوفان کے ذریعے حقائق کو مسخ کر کے جھوٹی اور جعلی معلومات کو حقائق تسلیم کروانے کی کوششیں بھی زوروں پر ہیں۔ اس ہمہ جہت جنگ میں ملک اور ملکی قیادت کی بے توقیری کر کے معیشت اور ریاستی ڈھانچے کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال ہو رہا ہے۔ عوام کو اس صورت حال سے متعلق اعتماد میں لینا چاہیے اور ساتھ ہی جس طرح چیئرمین نیب کو جن بے بنیاد الزامات سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسی کارروائیوں کی بھی روک تھام ضروری ہے۔ ریاستی اداروں کے سربراہان کی کردار کشی کرنے والے ایسے عناصر ملک کے غدار ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں کڑی سزا دینی چاہیے۔