تحریر : روہیل اکبر
عجیب مشکل میں پھنس چکے ہیں مہذب دنیا کے لوگ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی منازل طے کررہے ہیں اور ہم نے اپنا سفر تنزلی کی طرف جاری رکھا ہوا ہے ہمیں آج تک کسی طرف سے بھی خوشی کی کوئی خبر نہیں ملی قیام پاکستان 1947سے لیکرآج 2015کے آغاز تک ہمیں نہ تو اچھا لیڈر مل سکا نہ ہم نے پیدا کیا اور نہ ہی ہمارے مفاد پرست لیڈروں نے کسی اچھے لیڈر کو پیدا ہونے ہی دیا کیونکہ جس نرسری سے لیڈر پیدا ہوتے ہیں اسے ہم نے جان بوجھ کر بند کررکھا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین نہیں ہمارے بلدیاتی نظام جام ہیں جہاں کونسلر اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے نکلتا ہے ہماری ٹریڈ یونینز ختم ہوچکی ہیں حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ ملک کا نظام کیسے چلائیں اختیارات اور اقتدار پر جمہوریت کے نام پر قبضہ جما رکھا ہے کبھی ملک میں گیس نہیں ہے تو کبھی پیٹرول ختم ہوجاتا ہے کبھی چلتی ہوئی بس مسافروں سمیت جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے تو کبھی ناقص سامان سے تیار ہونے والے شادی ہال دھڑام سے نیچے آگرتے ہیں جہاں خوابوں کے محل سجائے دلہن پیا گھر جانے کی بجائے قبرستان چلی جاتی ہے
کبھی کسی پلازے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے تو کبھی کسی مارکیٹ میں آگ لگ جاتی ہے سڑک پر نکلیں تو بے ہنگم ٹریفک کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے خریداری کے لیے جائیں تو پتا نہیں چلتا کہ جو چیز لائیں ہیں وہ اصلی ہے یا نقلی پہلے تو دیہات میں کچھ سکون ہوتا تھا مگر اب ہمارے دیہات بھی شہروں جیسی مشکلات میں گھر چکے ہیں غریب اپنی غربت کے ہاتھوں تنگ ہے اور امیر اپنی عیاشیوں سے دوسروں کو تنگ کررہا ہے ایک یونین کونسل سے لیکر ایوان صدر تک کہیں بھی کچھ ٹھیک نہیں رہا دہشت گردوں نے ہمیں اندرونی طور پرنڈھال کررکھا ہے اور ہمارے حکمرانوں نے ہمیں بیرونی دنیا میں بھی کسی کام کا نہیں چھوڑا سب کو معلوم ہے کہ کمیشن خور ایجنٹ ہر جگہ بیٹھے ہیں جو لوٹ مار کے زریعے اپنے ہی ملک کو کمزور کررہے ہیں ہمارے آج تک جتنے بھی حکمران آئے بسب نے خوب لوٹا ملک کو کنگال کرکے بیرونی بینکوں میں اپنے اثاثے بڑھائے یہاں پر تو سرکاری ہسپتال میں بیٹھا ہوا ایک فارماسسٹ ،پولیس اسٹیشن کا ایس ایچ او ،علاقے کا پٹواری،رجسٹری محررجیسا معمولی سا ملازم نہ صرف کروڑو ں ،اربوں روپے کا مالک بنا بیٹھا ہے بلکہ بیرون ملک اچھی خاصی جائیدادیں بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا چکا ہے
ان سے اوپر جو لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں انکے اثاثوں کی مالیت بھی کسی سے کم نہیں ہے رہی بات موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی انکے پاس تو اتنا پیسہ ہے کہ وہ چاہیں تو ایک دن میں ملک کا قرضہ اتار سکتے ہیں جو انہی کی وجہ سے آج ہمارے گلے پڑا ہوا ہے مگر سیاست کی اس جادونگری میں ہمیں بیوقوف بنا کر حکمرانوں نے تو اپنے پیٹ بھر لیے اور عوام کوپھینک دیا دہشت گردوں کے آگے پاکستان جو اس عام شہریوں کے لیے مسائلستان بنا ہوا جہاں نہ کوئی ٹرین محفوظ ہے نہ گیس کی لائنیں اور نہ ہی بجلی کے پاور ہاؤس جسکا کا جب دل چاہتا ہے وہ منہ اٹھاکر کسی نہ کسی جگہ کو ٹارگٹ بنا کر بم سے اڑا دیتا ہے اور ہم بعد میں لکیر کو پیٹتے رہ جاتے ہیں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا نعر ہ لگانے والوں نے مادرِ وطن کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں نہ تو شرمندگی کا احساس ہے نہ ہی اپنی بد ترین کارکردگی کا، ان لوگوں نے تو ملک اور قوم کو تاریکیوں میں دھکیل دیا ،
اسکے باوجود جمہوریت کی شان میں قصیدے پڑھے جاتے ہیں اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو جمہوریت کی نام پر آنے والے حکمران سیاست دان نہیں بلکہ سرمایہ کاری کرنے والے سرما یہ دار اور سیاست کو تجارت سمجھنے والے سیا سی تاجر ہیں جن کا مقصد ملک کے تمام سرکاری اداروں سے مال و متا ع ذاتی طور پر حاصل کرکے اسے کنگھال بنانا ہے تا کہ وہ اور ان کے رفقا کار تباہ حال سرکاری اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید کر اپنی دنیا آباد کرالیں ابھی کچھ دن قبل ملک کے مختلف شہروں میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوا تو حکومت کے ہر وزیر ،مشیراور حکومتی عہدیدارنے اس پیٹرول کے حکومتی بحران کو بھی دشمنوں کی سازش قرار دینے کے لیے آسمان سر پر اٹھا لیا کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ پیٹرول کی قلت سے جو چند کا بحران پیدا ہوا تھا وہ حکومت کی غلطی تھی اب آئندہ ایسا نہیں ہوگا اس کے ساتھ ساتھ ہماری یادداشت بھی اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ جیسے ہی کوئی مسئلہ ختم ہوتا ہے تو ہم اسے بھول جاتے ہیں
اگر دیکھا جائے تو پیٹرول بحران حکومت کے خلاف نہیں بلکہ ملک اور قوم کے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ موجودہ حکمرانوں نے ماضی میں بھی کئی بحران پیدا کرکے اپنا نام سودا گروں میں درج کرا لیا تھا ماضی میں وزیرِ پیٹرولیم نے اپنی ذاتی ائیر لائن بنائی تھی شاید آج وہ بذاتِ خود یا کسی اور اہم شخصیت کے لئے PSO کا سودہ کرالیں ورنہ پاکستان کے طول و عرض میں پیٹرول کا بحران کیوں پیدا ہوا؟اس مصنوعی بحران سے حب الوطنی پر بھی سوالات ا ٹھ رہے ہیں کہ آخر اس بحران کا مقصد کس کا ایجنڈا پور اکرنا ہے جبکہ پیٹرول بحران پر اپوزیشن کی خاموشی بھی سوالیا نشان ہے ؟کیونکہ اصل میں ملک کی تعمیر و ترقی میں مقابلہ بازی نہیں کی جاتی بلکہ یہاں تو اہم سرکاری اداروں کو ہتھیانے کا مقابلہ ہورہا ہے یعنی کون کس ادارے پر قابض ہوسکتا ہے ،کیونکہ ہوس بہت بری بلا ہے ،فرعون بھی اس چکر میں مارا گیا تھا ،مرتے وقت اس کی جنت بنانے کی خواہش بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گئی تھی ،
بات دراصل یہ ہے کہ جہاں سے حکمرانوں کا تعلق ہے ان کی غلطیاں نظر انداز کردی جاتی ہیں جبکہ اچھے سیا ست دانوں کو جو نہایت ایماندار شریف بھی ہوتے ہیں انہیں نام نہاد فرضی مقدموں میں پھنسا کر اقتدار سے آؤٹ کرادیا جا تا ہے۔ وفاق سے لیکرصوبوں تک ملک کی بھاگ دوڑ ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہیں جنہوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے قوم ان حکمرانوں کو بد دعا ئیں دے رہی ہے مگر ان پر پھر بھی اثر نہیں ہوتا کیونکہ وہ ڈھیٹ بن چکے ہیں حالانکہ آٹھ برس قبل حکمران اتنے بے حس نہیں تھے مگر مُک مُکا کی سیا ست نے انہیں با ور کرا دیا ہے کہ حکمران اور اپوزیشن دونوں ملکر ملک و قوم کا کچھ بھی حشر کردیں انہیں ان کے عہدوں سے کوئی بھی نہیں ہٹا سکتا لہذٰا وہ قوم کے ذلت آمیز رویوں کو مسلسل سمیٹ رہے ہیں اللہ تعالی عوام کو عقل دیدے یا حکمرانوں کو۔
تحریر : روہیل اکبر
03004821200