جدید مغربی سیاسی نظام نے جس طرح پوری دنیا کو جنگ عظیم اول کے بعد اپنی لپیٹ میں لیا، اس کی مثال انسانی تاریخ میں شاید ملتی ہی نہیں۔ مدتوں دنیا پر مختلف بادشاہتیں قائم رہیں، اپنے عروج و زوال سے گزرتی رہیں لیکن ان میں سے ہر ایک کا اثرو رسوخ اور اقتدار اپنے زیر نگیں علاقوں میں ہوتا یا پھر اڑوس پڑوس کی کمزور آبادیوں پر۔ روم، چین، ایران، مصر، بابل اور ہندوستان جیسی وسیع و عریض بادشاہتیں تھیں لیکن ایک دوسرے سے جدا جدا۔ ہر کوئی اپنی مرضی سے اپنی حدود میں زندگی گزارتا، دوستیاں بناتا، دشمنیاں پالتا، جنگیں کرتا، صلح پر آمادہ ہوتا۔
کوئی لیگ آف نیشنز یا بعد میں بننے والی اقوام متحدہ جیسا منافق پلیٹ فارم نہیں تھا جس کی ممبر شپ اقوام عالم میں اپنی قانونی حیثیت منوانے کے لیے ضروری ہوتی۔ نہ ہی کاغذ کے نوٹ تھے کہ ایک ایسا “بینک آفانٹرنیشنل سیٹلمنٹ” قائم کرنا پڑتا جو یہ تعین کرے کہ کس ملک کی کرنسی کس قدر مضبوط یا کمزور ہے۔ سونے اور چاندی کے سکے سب کے برابر تھے۔ اس لیے کسی شرح مبادلہ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مالیاتی نظام کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف نہیں تھا۔ کمزور اور زیردست حکومتوں کو سزا دینے کے لیے عالمی عدالت انصاف اور کاروبار میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیمیں بھی وجود نہیں رکھتی تھیں۔
آج دنیا کا کوئی ملک اگر اس عالمی سیاسی و اقتصادی نظام سے الگ تھلگ ہوکر زندگی گزارنا چاہے تو اس کی زندگی کو ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا مل کر اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرتی ہے۔ اس کے جہازوں کو پرواز کرنے سے روکتی ہے۔ اس کے افراد پر دوسرے ملکوں میں جانے کی پابندی عائد ہوتی ہے۔ نہ ان کی کرنسی کی کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی پاسپورٹ کی۔ وہ اپنی سرحدوں کے اندر جو اگاتے ہیں وہی کھاتے ہیں، جوکپڑا تیار کرتے ہیں، وہی پہنتے ہیں، علاج بھی اپنے ہاں بننے والی ادویات سے کرتے ہیں اور حفاظت کے لیے ہتھیار بھی ان کے پاس وہی ہوتے ہیں جو ان کے ملک میں تیار ہوتے ہوں۔ سواری بھی وہی جو ان کے ہاں تیار ہو سکے۔
اس عالمی سیاسی نظام نے یوں آکٹوپس کی طرح دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے کہ کوئی کمزور ملک اس کے بغیر زندہ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی ایسا ملک جو عالمی سیاسی غنڈہ گردی کے مقابل اپنی حیثیت منوانے کی کوششیں کرتا ہے تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کیفیت کو ’’تنہائی‘‘ کہا جاتا ہے اور اسی کا نام لے کر صرف کمزور ملکوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ ورنہ چین اقوام متحدہ کا رکن بننے سے پہلے کئی دہائیاں اس تنہائی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا رہا۔
سوویت یونین اگرچہ کہ اس عالمی برادری کا رکن تھا لیکن مغربی اقدار کے دوغلے پن پر قائم عالمی سیاسی نظام نے 1980ء میں ماسکو میں ہونے والے اولمپک کھیلوں کا بائیکاٹ کیا، کیونکہ روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ لیکن یہی عالمی برادری اس موقع پر خوشی و مسرت سے ناچتی رہی جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا۔ غرض پوری دنیا میں اس عالمی سیاسی نظام کی ایک خاموش حکومت ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ لیکن جن طاقتوں نے یہ نظام وضع کیا ہے‘ ان کی مرضی کے نفاذ کے لیے ہر طرح کا ظلم روا رکھنا جائز تصور کرتی ہے۔ یہاں تک کہ عراق کی طرح خوراک اور ادویات کی ترسیل بھی بند کردو جس کے نتیجے میں لاکھوں بچے زندگی کی بازی ہار جائیں۔
جدید عالمی سیاسی نظام کی اس ’’تنہائی‘‘ کا خوف ہی ہے جس سے روز پاکستان کے حکمرانوں کو ڈرایا جاتا ہے اور انھیں عالمی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ تنہائی جسے ہم اپنے لیے ذلت، رسوائی اور معاشی بدحالی کی علامت سمجھتے ہیں‘ میرے آقا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور فتن میں اسے کامیابی قرار دیا ہے۔ ’’حضرت عبداللہ ابن عمر رسول اکرمﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’اسلام کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور عنقریب اسلام دوبارہ اجنبیت کی حالت کی طرف لوٹ جائے گا (صحیح مسلم)۔
رسول اکرمﷺ کی اس حدیث کو ایک اور جگہ ایسے بیان کیا گیا ہے۔ ’’حضرت جابر بن عبداللہ نے کہا کہ رسول اکرم نے فرمایا ’’اسلام کی ابتدا اجنبیت کی حالت میں ہوئی تھی اور ایک بار پھر اسلام اجنبیت کی حالت میں چلا جائے گا۔‘‘ سو مبارک باد ہے غرباء کو (المعجم الاوسط)۔ تھوڑی دیر کے لیے ذرا اسلام کی ابتدائی دور کی اجنبیت کا جائزہ لیں تو پورے مکّے بلکہ جزیرہ نماء عرب میں اسلام جو دعوت پیش کررہا تھا وہ اس پورے نظام یا لائف اسٹائل کے لیے اجنبی تھی۔
معاملہ صرف خانہ کعبہ کے طواف اور عبادات کا نہیں تھا، اسلام نے ان کے تمام معاملات اور تمام نظام ہائے زندگی کو رد کرتے ہوئے ایک نظام زندگی پیش کیا تھا جو انھیں انوکھا اور حیران کن لگتا تھا۔ اسی لیے اس دور میں آج کی طرح کی عالمی سزا قبائلی معاشرے میں بھی رائج تھی یعنی تمام قبائل نے مل کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خاندان کا بائیکاٹ کیا تھا اور آپ کو تین سال شعب ابی طالب میں گزارنے پڑے تھے۔ یہ ایک تنہائی تھی۔ کس قدر خوش بخت تھی وہ سرزمین اور وہ لوگ جنہوں نے اس تنہائی کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی اس معاشرے میں اجنبی تھے اور بشارتوں کے امین تھے۔ آج بھی رسول اکرم کے ارشاد کے مطابق اسلام ایک بار پھر سے اجنبی ہو چکا ہے۔ نہ سیاسی نظام ہمارا ہے اور نہ ہی معاشی و مالیاتی نظام۔ پوری دنیا کا ایک لائف اسٹائل ہے جس کے مطابق وہ ہمیں زندگی گزارنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ جو اس لائف اسٹائل کے مطابق زندگی نہیں گزارنا چاہتا تو اسے عبرت کا نشان بنانے کے لیے تمام عالمی غنڈے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
جدید عالمی سیاسی نظام میں ایسی اجنبیت کچھ عرصہ کے لیے ملا محمد عمر اور طالبان کی حکومت کو میسر آئی جو کسی اقوام متحدہ‘ ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کی مرہون منت نہ تھی۔ اس اجنبیت نے افغانستان کو ایک ایسا پرامن اور انصاف سے بھرپور معاشرہ عطا کیا جس کی مثال گزشتہ کئی صدیوں میں بھی نہیں ملتی۔ پھر ان کے اثرونفوذ سے خوفزدہ مغرب ان پر حملہ آور ہو گیا۔
اگر ہم جدید معاشرے‘ تہذیب اور ماحول میں الگ تھلگ نظر نہیں آتے‘ ہماری وضع قطع‘ تراش خراش‘ طرز زندگی‘ ہماری اصطلاحیں اور استعارے‘ ہمارا تصور بندگی‘ ہمارا معاشی نظام جو سود کی نفی کرے‘ ہمارا پوری امت مسلمہ کو رنگ‘ نسل‘ زبان اور علاقے سے بالاتر ہو کر ایک جسد واحد اور امت تصور کرنا‘ ہمارا اپنے مسلمان بھائی کے درد میں تڑپنا اور بے چین ہونا‘ ہمارا ’’قریۂ ظالم‘‘ میں مظلوم انسانوں کی قرآن کی تعلیمات کے مطابق مدد کے لیے نکل کھڑے ہونا‘ اگر یہ سب کچھ ہم میں نظر آتا ہے تو پھر یقیناً وہ ’’اجنبی‘‘ جن کو رسول اکرم ﷺ نے بشارت اور خوشخبری دیتے ہوئے کہا ہے وہ ہم نہیں ہیں۔
آپ نے فرمایا ’’فطوبیٰ للغربا‘‘۔ مبارکباد ہے اجنبیوں کے لیے۔ وہ اجنبی کون ہیں۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ اجنبی کون ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ لوگ جو لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے کے وقت ان کی اصلاح کرینگے (المعجم الاوسط)۔ فساد سے مراد صرف قتل و غارت نہیں بلکہ ہر وہ عمل جو معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی‘ خاندانی‘ تہذیبی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کر دے‘ ادارے تباہ و برباد کر دے۔ کیا گزشتہ دو صدیوں میں خاندانی نظام کے فساد نے اس بنیادی ادارے کو ختم نہیں کر دیا‘ بینکاری کے سود نے معاشی نظام میں فساد پیدا کیا‘ عریانی و فحاشی نے معاشرتی نظام میں فساد برپا کیا۔ ’’اجنبی وہ ہے جو ان کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ دقیانوس‘ فرسودہ‘ جاہل اور پسماندہ کہلاتا ہے۔ اگر وہ اکیلا انسان ہو تو معاشرے میں اجنبی کہلاتا ہے‘ کوئی تنظیم ہو تو جدید میڈیا اور حکمران کے نزدیک قابل تعزیر اور اگر کوئی حکومت ہو تو عالمی سطح پر تنہائی شکار ہوتی ہے۔ لیکن یہی تو وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا و آخرت کی بشارتیں ہیں اور یہی تو کامیاب لوگ ہیں۔